کشمیر کی صورتحال کو قریب سے دیکھ رہے ہیں، امریکا
واشنگٹن: امریکا نے عالمی برادری کو یقین دلایا ہے کہ وہ مقبوضہ جموں اور کشمیر میں پیشرفتوں کو بہت قریب سے دیکھ رہا ہے اور اس معاملے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان براہ راست مذاکرات کی حمایت کرتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 20 جنوری کو جو بائیڈن انتظامیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے امریکی وزیر خارجہ کی روزانہ کی نیوز بریفنگ میں مسئلہ کشمیر کو باقاعدگی سے اٹھایا جارہا ہے۔
امریکی میڈیا کے صحافی یہ جاننے کے لیے بے چین نظر آتے ہیں کہ نئی انتظامیہ جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی قوتوں، بھارت اور پاکستان کے درمیان اس پرانے تنازع سے نمٹنے کا ارادہ کس طرح کرتی ہے۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کو 'وفاقی اکائی' بتاتے ہوئے امریکا کا کشمیر پالیسی میں تبدیلی نہ کرنے کا دعویٰ
نیوز بریفنگ کے دوران ایک صحافی نے محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کو یاد دلایا کہ بھارت اور پاکستان نے گزشتہ ماہ کے آخر میں کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے ساتھ امن برقرار رکھنے کے اپنے عہد کی تجدید کی تھی۔
اس کے بعد سے ہی دونوں نے 2003 میں جس جنگ بندی معاہدے پر دستخط کیے تھے ان کی خلاف ورزیوں سے گریز کیا ہے لیکن امن بدستور کمزور ہے۔
صحافی نے سوال کیا کہ 'امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن جنگ بندی برقرار رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے کیا کرنے جا رہے ہیں'۔
نیڈ پرائس نے جواب دیا کہ 'یہ سچ ہے کہ ہم جموں و کشمیر میں ہونے والی پیش رفت کو بہت قریب سے دیکھتے آرہے ہیں، خطے کے بارے میں ہماری پالیسی تبدیل نہیں ہوئی'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم تمام فریقین سے 2003 کے جنگ بندی کے وعدوں پر واپس آتے ہوئے لائن آف کنٹرول کے ساتھ تناؤ کو کم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، ہم ان دہشت گردوں کی مذمت کرتے ہیں جو لائن آف کنٹرول کے پار دراندازی کرنا چاہتے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: مسئلہ کشمیر پر امریکا کی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی، اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ
اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ واشنگٹن دونوں فریقین کی طرف سے جنگ بندی معاہدے کا احترام کس طرح یقینی بنائے گا نیڈ پرائس نے کہا کہ 'ہم بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر اور دیگر شعبوں پر براہ راست بات چیت کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں'۔
صحافی نے پھر نشاندہی کی کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان براہ راست بات چیت پر زور دینے سے کشمیری رہنماؤں پر منفی اثر پڑا ہے جو اس عمل میں خود کو بے آواز محسوس کررہے ہیں۔
صحافی نے سوال کیا کہ 'کیا امریکا حقیقت میں نہ صرف بھارت اور پاکستان بلکہ کشمیری رہنماؤں سے بھی مشغول ہونے کے لیے کچھ کرنے جا رہا ہے؟'
امریکی عہدیدار نے کہا کہ 'میرے پاس اس حوالے سے آپ کے لیے کچھ نہیں ہے، اگر ہم اس میں کچھ بھی شامل کرسکتے ہوں تو ہم ضرور کریں گے'۔
مزید پڑھیں: بھارت مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، دفتر خارجہ
واضح رہے کہ اس سے ایک روز قبل اس ہی طرح کی بریفنگ کے دوران نیڈ پرائس نے بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے اس کے لیے 'وفاقی اکائی' کی اصطلاح استعمال کی تھی تاہم اس نے اسی وقت اس بات پر زور دیا کہ واشنگٹن کی کشمیر کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
امریکا نے جموں و کشمیر کو مستقل طور پر بھارت اور پاکستان کے درمیان متنازع علاقہ تسلیم کیا ہے اور دونوں پر زور دیا ہے کہ وہ اس مسئلے کو دو طرفہ بات چیت کے ذریعے حل کریں تاہم گزشتہ ماہ مقبوضہ وادی میں تیز رفتار انٹرنیٹ کی بحالی کا خیرمقدم کرتے ہوئے محکمہ خارجہ کے ایک ٹوئٹ نے متنازع علاقے کو 'بھارت کا جموں و کشمیر' کہا تھا۔
اسلام آباد نے اس گمراہ کن بیان کا فوری جواب دیتے ہوئے واشنگٹن کو یاد دلایا تھا کہ یہ خطے کی متنازع حیثیت سے متضاد ہے۔