• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

وزیراعظم کو اعتماد کے ووٹ میں فتح کا یقین

شائع March 6, 2021
عمران خان ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں گے—فائل فوٹو: پی ٹی آئی
عمران خان ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں گے—فائل فوٹو: پی ٹی آئی

اسلام آباد: قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حکمران اتحاد کے 179 اراکین میں سے 175 نے وزیراعظم عمران خان کو یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ آج (ہفتہ) کو ہونے والے ایوان زیریں کے خصوصی اجلاس کے دوران انہیں اعتماد کا ووٹ دیں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس میں پارلیمانی پارٹیوں کے ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں حکمران اتحاد کے تمام اراکین قومی اسمبلی کو کہا گیا کہ وہ وزیراعظم کے لیے ووٹ دیں بصورت دیگر وہ ڈی سیٹڈ ہوسکتے ہیں۔

اسی سلسلے میں تمام قانون سازوں کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ سوا 12 بجے سے قبل پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ جائیں کیونکہ تب قومی اسمبلی کا اجلاس شو آف ہنڈز کے نہیں بلکہ حکومتی اور اپوزیشن بینچوں کی تقسیم کے ذریعے ووٹنگ کے لیے شروع ہوگا۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے مطابق آج قومی اسمبلی کا اجلاس وزیراعظم کے اعتماد کے ووٹ کے ایک نکاتی ایجنڈا پر ہورہا ہے اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ایوان میں ایک قرار داد پیش کریں گے جس پر ووٹنگ ہوگی۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی، مولانا فضل الرحمٰن

مذکورہ قرارداد میں کہا گیا کہ ‘یہ ایوان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان پر اعتماد بحال کرتی ہے جیسا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 91 کی شق (7) کے تحت ضروری ہے‘۔

علاوہ ازیں کابینہ کے ایک رکن کے مطابق حکمران اتحاد کے 175 ایم این ایز نے وزیراعظم ہاؤس میں پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت کی جو پنجاب ہاؤس میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی جانب سے پی ٹی آئی کی خواتین قانون سازوں کو دیے گئے ظہرانے کے بعد منعقد کیا گیا تھا، بعد ازاں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے ایم این ایز کو عشائیہ بھی دیا گیا۔

خیال رہے کہ فیصل واڈا کے استعفیٰ دینے اور این اے 175 ڈسکہ کی نشست پر دوبارہ اتنخابات کے بعد قومی اسمبلی میں حکومت کی 179 نشستیں ہیں اور وزیراعظم کو 341 اراکین کے ایوان کے اعتماد حاصل کرنے کے لیے کم از کم 172 ووٹس حاصل کرنا ہوں گے۔

دریں اثنا جو اراکین مذکورہ اجلاس میں شرکت نہیں کرسکے ان میں وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی، عامر لیاقت حسین، غلام بی بی بھروانہ، باسط سلطان اور مونس الٰہی شامل تھے۔

اس حوالے سے پی ٹی آئی کے ایک اور رہنما نے کہا کہ جو غیرحاضر تھے وہ آج ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں گے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ علی زیدی لاہور میں پھنس گئے تھے جبکہ کراچی میں موجود عامر لیاقت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ہفتے کو ایوان میں موجود ہوں گے۔

ادھر اجلاس کے دوران وزیر دفاع پرویز خٹک نے متعلقہ قواعد اور آئین کے آرٹیکلز پر بریفنگ دی اور خبردار کیا کہ جنہوں نے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دیا اسے ڈی سیٹڈ کردیا جائے گا۔

وفاقی وزیر کی جانب سے حکمران اتحاد کے تمام اراکین اسملبی کو یہ کہا گیا کہ وہ وقت سے پہلے قومی اسمبلی پہنچیں کیونکہ سوا 12 بجے ہال کے دروازے بند کردیے جائیں گے اور اس کے بعد کسی کو اسمبلی ہال میں آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

اسی حوالے سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت کو 16 حکمران اتحاد کے ایم این ایز جنہوں نے حالیہ سینیٹ انتخابات میں حفیظ شیخ کے بجائے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس (پی ڈی ایم) کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا تھا کہ معاملے پر اٹکے رہنے کے بجائے آگے بڑھنا چاہیے۔

علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے حکمران اتحادیوں کے رہنماؤں کے ساتھ الگ ملاقاتیں بھی کیں۔

جس میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)، پاکستان مسلم لیگ (ق) اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔

اس موقع پر وزیراعظم نے لائٹر نوٹ میں (ماضی کے مسلم لیگ (ن) کے اقدام کا حوالہ دیتے) کہا کہ وہ حکمران اتحادیوں کو چھانگا مانگا نہیں لے جاسکتے لیکن انہیں مری کے پہاڑی ریسورنٹ لے جاسکتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے اتحادی اراکین کو یہ بھی کہا گیا کہ وہ وزیراعظم کے اعتماد کا ووٹ لینے تک وفاقی دارالحکومت نہ چھوڑیں، وزیراعظم نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اراکین قومی اسمبلیز وزیراعظم ہاؤس میں رہیں جہاں سے وہ انہیں آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں لے جائیں گے۔

مزید برآں پی ڈی ایم کی جانب سے ہفتہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور مولانا فضل الرحمٰن نے اس پورے عمل کو بے معنیٰ قرار دیا ہے۔

اس سے قبل اجلاس طلب کرنے پر ایک تنازع نے جنم لیا تھا کیونکہ اپوزیشن کا ماننا تھا کہ وزیراعظم خود سے سمری نہیں دے سکتے اور یہ آئین کے تحت صدر کا اختیار ہے تاہم آئین کا آرٹیکل 91 (7) کہتا ہے کہ ’وزیراعظم، صدر کی خوشنودی کے دوران عہدے پر فائز رہے گا لیکن صدر اس شق کے اس وقت تک اپنے اختیارات کا استعمال نہیں کرے گا جب تک اسے یہ اطمینان نہ ہو کہ وزیراعظم کو قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا اعتماد حاصل نہیں ہے، اس صورت حال میں وہ قومی اسمبلی طلب کرے گا اور وزیراعظم کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا حکم دے گا‘۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن نےملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے، وزیر اعظم

بعد ازاں وزیراعظم کے اعتماد کا ووٹ لینے کے فیصلے کے بعد صدر عارف علی نے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا تھا۔

پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس کے دوران وزیراعظم نے کہا کہ وہ نتائج سے خوفزدہ نہیں ہیں، جن اراکین اسمبلی کو کوئی اعتراض ہے انہیں آگے آنا چاہیے اور ان سے اختلاف کا اظہار کرنا چاہیے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ حکمران اتحاد کے تمام اراکین قومی اسملی انہیں ووٹ دیں گے کیونکہ اجلاس میں موجود تمام اراکین نے انہیں اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی کے حکمرانوں کی پالیسیوں اور اقتدار میں آکر کرپشن کے باعث ملک بری حالت میں ہے لیکن ’آج ہم نے لوگوں کو کچھ ریلیف دیا ہے اور ملک کو صحیح راستے پر ڈالا ہے‘۔


یہ خبر 6 مارچ 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024