الیکشن کمیشن نےملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے، وزیر اعظم
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ہمارے ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے، آپ کو سپریم کورٹ نے موقع دیا تو کیا 1500 بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ نہیں لگایا جاسکتا تھا۔
قوم سے خطاب میں وزیر اعظم نے الیکشن کمیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'سپریم کورٹ میں آپ نے اوپن بیلٹ کی مخالفت کیوں کی، کیا آئین چوری کی اجازت دیتا ہے، پھر آپ نے قابل شناخت بیلٹ پیپزر کی مخالفت کی اگر ایسا ہو جاتا تو آج جو ہمارے 15، 16 لوگ بکے ہیں ہم ان کا پتا لگا لیتے، یہ پیسے دے کر اوپر آنا کیا جمہوریت ہے، الیکشن کمیشن نے ہمارے ملک میں جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے، آپ کو سپریم کورٹ نے موقع دیا تو کیا 1500 بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ نہیں لگایا جاسکتا تھا، آج آپ نے ملک کی جمہوریت کا وقار مجروح کیا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ آپ کو اندازہ نہیں کہ اس الیکشن میں کتنا پیسا چلا ہے، میں نے الیکشن سے پہلے کہا تھا کہ ریٹ لگ گئے ہیں، کیا آپ کو نہیں پتہ یہ تحقیقات کرنے کی ذمہ داری آپ کی تھی، جو کروڑوں روپے خرچ کر کے سینیٹر بنے گا وہ ریکور کیسے کرے گا، جو کروڑوں روپے خرچ کر کے سینیٹر بنے گا وہ کیا حاتم طائی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایوان بالا کے انتخابات کے بعد اب تمام نظریں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب پر مرکوز
'سینیٹ انتخابات میں 30، 40 سال سے پیسہ چل رہا ہے'
وزیر اعظم نے کہا کہ سینیٹ کے انتخابات جس طرح ہوئے ہیں انہی سے ملک کے مسائل کی وجہ سمجھ آجاتی ہے، خیبر پختونخوا میں ہماری پہلی حکومت میں مجھے پتہ چلا کہ سینیٹ کے انتخابات میں پیسہ چلتا ہے اور یہ سلسلہ 30، 40 سال سے چل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے انتخابات سے ملک قیادت آتی ہے، جب ایک سینیٹر رشوت دے کر سینیٹر بن رہا ہے اور ارکان پارلیمنٹ پیسے لے کر اپنے ضمیر بیچ رہے ہیں تب سے میں نے اوپن بیلٹ کی مہم چلانا شروع کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پارلیمنٹ میں بھی اوپن بیلٹ کا بل پیش کیا، ہم نے اوپن بیلٹ کے لیے بل پیش کیا تو یہ تمام جماعتیں خفیہ بیلٹ پر اکٹھی ہوئیں، جس کے بعد ہم معاملے کو سپریم کورٹ لے کر گئے، وہاں الیکشن کمیشن نے اس کی مخالفت کی اور عدالت عظمیٰ نے کہا کہ صاف و شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔
'اپوزیشن کے ہاتھوں نہ بلیک میل ہوں گا نہ این آر او دوں گا'
عمران خان نے کہا کہ جب سے ہماری حکومت آئی ہے تب سے پرانی جماعتوں کی کرپٹ قیادت کو خوف آگیا کہ چونکہ میں نے کرپشن کے خلاف ہی مہم چلائی ہے تو کہیں یہ ہم پر ہاتھ نہ ڈال دیں، میں کہہ چکا تھا کہ جب ان پر ہاتھ پڑے گا تو یہ سب اکٹھے ہوجائیں گے اور ایسا ہی ہوا، انہوں نے مجھ پر ہر طرح سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ملک کو فیٹف کی بلیک لسٹ میں ڈلوایا، جب ہم نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے قانون سازی کی کوشش کی تو انہوں نے این آر او مانگتے ہوئے اپنے نکات پیش کر دیے اور بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ انہوں نے پوری کوشش کی کہ سینیٹ انتخابات کے لیے ہمارے اراکین توڑیں اور ہماری اکثریت کو ختم کریں، اکثریت ختم کرنا عدم اعتماد کا ووٹ نہیں ہے، ان کا مقصد تھا کہ اعتماد کے ووٹ کی تلوار مجھ پر لٹکائیں اور میں این آر او دوں،لیکن میں اپوزیشن کے ہاتھوں نہ بلیک میل ہوں گا نہ این آر او دوں گا۔
مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات میں اپ سیٹ: وزیراعظم کا ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ
'سارا ڈرامہ عبدالحفیظ شیخ کی نشست کے لیے کیا گیا'
وزیر اعظم نے کہا کہ 1985 کے بعد ملک میں تباہی مچی اور کرپشن اوپر گئی، جب وزیر اعظم اور وزیر چوری کرتا ہے تو ملک کو مقروض کر دیتا ہے، جیلوں میں جو غریب چور ہیں وہ تمام مل کر بھی 30 ارب روپے چوری نہیں کر سکتے، قانون کی بالادستی کا مطلب ہوتا ہے کہ غریب و امیر کے لیے انصاف کا معیار ایک ہو، انصاف وہ ہوتا ہے جو طاقتور کو قانون کے نیچے لاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کو اتنی ہی سیٹیں ملیں جتنی ملنی تھیں، انہوں نے سارا ڈرامہ ایک عبدالحفیظ شیخ کی نشست کے لیے کیا، ہمارے اراکین نے بتایا کہ انہیں فون کرکے پیسوں کی پیشکش کی گئی اور 2 کروڑ سے بولی لگنا شروع ہوئی۔
'ارکان نے اعتماد کا اظہار نہ کیا تو اپوزیشن میں چلا جاؤں گا'
انہوں نے کہا کہ میں پرسوں اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے رہا ہوں، ارکان اسمبلی ضمیر کے مطابق ووٹ دیں، اگر میں اہل نہیں ہوں اور مجھ پر اعتماد ظاہر نہیں کیا جاتا تو میں اپوزیشن میں چلا جاؤں گا۔
اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو مخاطب کرکے ان کا کہنا تھا کہ اگر اقتدار چلا جاتا ہے تو میرا کیا نقصان ہوگا، مجھے سرمایہ جمع نہیں کرنا اور جائیداد نہیں بنانی، سفر اور سیکیورٹی کے علاوہ مجھ پر حکومت کا کوئی پیسہ خرچ نہیں ہو رہا، لیکن میں باہر بھی ہوجاؤں تب بھی آپ کو نہیں چھوڑوں گا، قوم کا پیسہ واپس کرنا ہوگا، میرا ایمان ہے کہ یہ ملک ایک عظیم ملک اس وقت بنے گا جب اس میں ڈاکوؤں کو سزائیں ملیں گی۔
سینیٹ انتخابات میں اپ سیٹ
واضح رہے کہ 3 مارچ کو ایوان بالا کی 37 نشستوں میں سب سے زیادہ توجہ کا مرکز رہنے والی نشست اسلام آباد کی جنرل نشست تھی جس پر پاکستان تحریک انصاف و حکمران اتحاد کے اُمیدوار وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ تھے اور ان کے مدمقابل اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے مشترکہ امیدوار سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تھے۔
حکمران جماعت کو یقین تھا کہ وہ قومی اسمبلی جو اس نشست کے لیے الیکٹورل کالج تھی وہاں اکثریت کی وجہ سے یہ نشست جیت لے گی تاہم نتائج اس کے برعکس آئے اور اپوزیشن امیدوار یوسف رضا گیلانی 169 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے جبکہ حفیظ شیخ 164 ووٹ حاصل کرسکے اور 7 ووٹ مسترد ہوئے۔
دلچسپ امر یہ رہا کہ اسلام آباد سے ہی خواتین کی نشست پر پاکستان تحریک انصاف کی رہنما 174 ووٹ لے کر کامیاب ہوئیں جبکہ اپوزیشن کی امیدوار کو شکست دیکھنا پڑی۔
اس اپ سیٹ شکست کے بعد جہاں حکومت کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا وہیں اپوزیشن نے اس پر فتح منائی اور وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ بھی کیا۔
جس کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی و دیگر وزرا نے ایک پریس بریفنگ دی اور بتایا کہ وزیراعظم نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔