کورونا وائرس کی وبا کا خاتمہ رواں سال ممکن نظر نہیں آتا، عالمی ادارہ صحت
پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی شرح میں لاک ڈاؤنز اور ویکسینیشن کے نتیجے میں کمی آنے کے باوجود رواں سال اس کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا۔
یہ بات عالمی ادارہ صحت کے ایمرجنسی سروسز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر مائیک ریان نے کہی۔
ایک پریس بریفننگ کے دوران ڈاکٹر مائیکل ریان نے کہا کہ یہ سوچنا قبل از وقت اور غیرحقیقی ہوگا کہ 2021 کے آخر تک اس وبا کا خاتمہ ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ خطرے سے دوچار افراد بشمول طبی عملے کی ویکسینیشن سے صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور ہسپتالوں پر بوجھ کم ہوگا، مگر یہ کہنا کہ وائرس کو کنٹرول کیا جاچکا ہے، قبل از وقت ہوگا۔
ان کا کہنا تھا 'میرے خیال میں یہ سوچ غیرحقیقی ہوگی کہ اس سال کے آخر تک ہم وائرس کا خاتمہ کردیں گے'۔
مائیک ریان نے کہا 'اگر اگر ویکسینز کے اثرات سے نہ صرف اموات اور ہسپتال میں داخلے کی شرح میں کمی آتی ہے بلکہ اس کے پھیلاؤ کا خطرہ بھی نمایاں حد تک کم ہوتا ہے، تو پھر مجھے لگے گا کہ ہم وبا کو کنٹرول کرنے کی جانب تیزی سے پیشرفت کررہے ہیں'۔
دنیا بھر میں نئے کووڈ کیسز کی تعداد میں گزشتہ لگ بھگ 2 ماہ بعد اضافہ دیکھنے میں آیا، بالخصوص امریکا، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقی بحیرہ روم میں یہ اضافہ ہوا۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانم گیبریسس نے کہا 'یہ مایوس کن ہے مگر حیران کن نہیں'۔
انہوں نے کہا 'ہم وائرس کے پھیلاؤ میں اضافے کے بارے میں سمجھنے کے لیے کام کررہے ہیں، کچھ مقامات پر تو بظاہر اس کی وجہ احتیاطی تدابیر کو نرم کرنا، وائرس کی گردش برقرار رہنا اور لوگوں کا احتیاط نہ کرنا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ویکسینز سے زندگیاں بچانے میں مدد ملے گی، تاہم ممالک نے صرف ویکسینز پر انحصار کیا تو یہ ایک غلطی ہوگی، بنیادی احتیاطی تدابیر ہی طبی ردعمل کی بنیاد ہیں'۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل نے ویکسینز تک رسائی میں عدم مساوات اور کوویکس کے تحت افریقی ممالک میں ویکسینز کی فراہمی کا خیرمقدم بھی کیا ہے۔
انہوں نے کہا 'یہ قابل افسوس ہے کہ کچھ امیر ممالک میں ویکسینیشن شروع ہونے کے 3 ماہ بعد افریقہ میں ویکسین پہنچی'۔
انہوں نے مزید کہا 'یہ بھی قابل افسوس ہے کہ کچھ ممالک میں اپنے ملک میں نوجوان اور صحت مند افراد کی ویکسینیشن کو ترجیح دی جارہی ہے تاکہ اپنی آبادی کے لیے خطرہ کم کیا جاسکے جبکہ دنیا بھر میں طبی عملے اور معمر افراد کی فکر نہیں کی جارہی'۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ممالک کا ایک دوسرے سے نہیں بلکہ وائرس کے خلاف مقابلہ ہونا چاہیے، ہم ممالک سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ وہ اپنے لوگوں کو خطرے میں ڈالیں، بلکہ ہم تمام ممالک سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہر جگہ وائرس پر قابو پانے کی عالمی کوششوں کا حصہ بنیں۔