• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

لاہور کے خلاف کراچی کی شکست کی ’اہم‘ وجوہات

شائع March 1, 2021

28 فروری بروز اتوار کو پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے چھٹے ایڈیشن کا 11واں میچ لاہور قلندرز اور کراچی کنگز کے درمیان کھیلا گیا ہے۔ اس میچ میں بھی حسبِ روایت ناصرف ٹاس جیتنے والی ٹیم نے پہلے باؤلنگ کرنے کو ترجیح دی بلکہ جیت بھی اسی کے حصے میں آئی۔

قلندرز کی دعوت پر کراچی کنگز نے بیٹنگ کا آغاز کیا تو اس سیزن میں پہلی مرتبہ یہ ٹیم آغاز میں مشکلات سے دوچار نظر آئی۔ ابتدائی 5 اوور میں صرف 37 رنز بنے اور 3 کھلاڑی پویلین واپس جاچکے تھے۔ واپس جانے والوں میں کنگز کی بیٹنگ کا مضبوط ستون بابر اعظم کے ساتھ ساتھ جارحانہ کھیل کے لیے مشہور جو کلارک اور کولن انگرام بھی شامل تھے۔

لیکن اس سست اور پریشان کن آغاز کے بعد کراچی کنگز کو شرجیل خان اور محمد نبی کی شکل میں نجات دہندہ مل گئے۔ چوکوں اور چھکوں سے بھرپور اس شراکت میں صرف 43 گیندوں پر 76 رنز بن گئے اور اس شراکت داری کے سبب ایک بڑا اسکور کرنے کی بنیاد پڑگئی۔

13ویں اوور کی پہلی گیند پر جب ڈیوڈ ویزے نے شرجیل خان کی وکٹ حاصل کی تو کراچی کا ٹوٹل 113 تک پہنچ چکا تھا۔ پھر جب 16ویں اوور میں محمد نبی حارث رؤف کا شکار ہوئے تو اس وقت بھی ٹیم کا اسکور 158 تھا، یعنی اگلے آنے والوں کو بس آخری 4 اوورز تک اس تسلسل کو برقرار رکھنا تھا، اور اگر ایسا ہوجاتا ہے یہ ٹیم باآسانی 200 رنز کی نفسیاتی حد عبور کرلیتی جو یقینی طور پر لاہور کے لیے پریشانی کا سبب ہوتا۔

مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا اور آخری 4 اوورز میں صرف 28 رنز ہی بن سکے اور یہی وہ کمی یا کوتاہی تھی جو فتح اور شکست کا فرق بن گئی۔

میچ کا ٹرننگ پوائنٹ

کراچی کنگز کی اننگز کے 16ویں اوور کی پانچویں گیند پر جب ٹیم کا مجموعی اسکور 158 رنز تھا تو محمد نبی 35 گیندوں پر 57 رنز کی شاندار اننگ کھیل کر پویلین لوٹ گئے۔ یہاں کپتان عماد وسیم پر بھاری ذمہ داری عائد ہوچکی تھی کہ وہ اننگ کا اچھا اختتام کریں لیکن وہ تو پہلی ہی گیند پر آؤٹ ہوگئے۔

پھر 18ویں اوور کی آخری گیند پر ڈینیل کرسٹیئن بھی رن آؤٹ ہوکر ڈگ آؤٹ میں واپس چلے گئے۔ یعنی آخری 4.2 اوورز میں کراچی کی بیٹنگ بُری طرح ناکام رہی اور انہوں نے اس دوران 5 وکٹوں کے نقصان پر صرف 28 رنز بنائے، اور میچ مکمل ہونے کے بعد یہ یقین ہوگیا کہ یہی وہ آخری 4 اوورز تھے جو میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئے۔

شاہین شاہ آفریدی کی شاندار باؤلنگ کا سلسلہ جاری

شاہین شاہ آفریدی کی شاندار باؤلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ ٹیم پہلے باؤلنگ کرے یا بعد میں، شاہین شاہ پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوتا اور وہ اپنی عمدہ باؤلنگ سے مخالف ٹیم کو پریشان کرتے ہیں اور اکثر پہلے ہی اوور میں وکٹ بھی لے لیتے ہیں۔

اس میچ میں بھی ان کی یہ روایت برقرار رہتی اگر کپتان سہیل اختر پہلے ہی اوور میں شرجیل خان کا آسان ترین کیچ نہ چھوڑتے۔ لیکن شاہین کی یہی خوبی شاید ان کو ممتاز کرتی ہے کہ وہ ہمت نہیں ہارتے اور انہوں نے کپتان کی اس غلطی کا ازالہ اپنے اگلے ہی اوور میں بابر اعظم کی قیمتی وکٹ حاصل کرکے کردیا۔

اسی طرح انہوں نے اننگ کے اختتامی لمحات میں بھی عمدہ باؤلنگ کی اور وکٹیں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ رنز بھی روکے رکھے۔ انہوں نے اپنے مقررہ اوور میں 27 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کیں اور کراچی کو ایک ایسے اسکور تک محدود کردیا جس کا تعاقب کرنے کی صلاحیت ان کی ٹیم میں موجود تھی۔

ہدف کا تعاقب اور محمد حفیظ کی وکٹ

فتح کے لیے درکار ہدف کا اپنا ایک دباؤ ہوتا ہے اور قلندرز کے ابتدائی بیٹسمینوں نے اس دباؤ کو محسوس کیا اور اس کے نتیجے میں ان کے 3 کھلاڑی صرف 33 رنز کے اسکور پر آؤٹ ہوگئے۔ آؤٹ ہونے والے کھلاڑیوں میں لاہور قلندرز کے سب سے تجربے کھلاڑی محمد حفیظ بھی شامل تھے۔ وہ صرف 15 رنز بناکر وقاص مقصود کی بال پر بابر اعظم کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوگئے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ یہ اس سیزن میں یہ پہلا موقع ہے جب کوئی باؤلر ان کو آؤٹ کرنے میں کامیاب رہا ہو۔

عماد وسیم کی دفاعی کپتانی اور لاہور کی میچ میں واپسی

جب لاہور قلندرز کی ٹیم 3 وکٹیں گرنے کے باعث دباؤ میں تھی، تو کپتان عماد وسیم نے دباؤ کو بڑھانے یا برقرار رکھنے کے بجائے دفاع کرنے کو ترجیح دی۔ یعنی مزید ایک دو وکٹیں لینے کی فکر کرنے کے بجائے آخر میں کیا ہوگا، اس کی فکر کرتے ہوئے محمد عامر کو باؤلنگ سے ہٹادیا۔ ان کی اس دفائی کپتانی نے فخر زمان اور بین ڈنک کو کریز پر جمنے کا موقع دیا اور یہ دونوں کھلاڑی اطمینان سے کھیلتے ہوئے اپنی ٹیم کو دباؤ سے نکال کر جیت کے دہانے پر لے آئے۔

ان دونوں کھلاڑیوں کے درمیان 12 اوورز میں 119 رنز کی شاندار شراکت قائم ہوئی۔ اس میچ میں عماد وسیم نے باؤلنگ بھی نہیں کی۔ اگر ایسا انہوں نے فٹنس مسائل کی وجہ سے کیا تو چلیں کوئی بات نہیں، لیکن اگر انہوں نے کسی مخصوص کھلاڑی کی وکٹ پر موجودگی کی وجہ سے باؤلنگ نہیں کی تو یہ ایک غلط حکمتِ عملی تھی۔ اگر کپتان ہی مخالف کھلاڑیوں سے مرعوب ہوجائے تو اس کی ٹیم کا عدم اعتماد کا شکار ہوجانا کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔

مقابلے میں ایک دلچسپ موڑ

لاہور قلندرز بہت اطمینان کے ساتھ اپنے ہدف کی جانب گامزن تھی اور میچ کا نتیجہ روز روشن کی طرح میدان میں بیٹھے شائقین اور گھروں میں بیٹھے ناظرین پر واضح ہوچکا تھا، لیکن ڈینیل کرسٹیئن کی جانب سے کیے جانے والے 18ویں اوور نے تو جیسے میچ میں ایک نئی روح پھینک دی. انہوں نے اس اہم اوور میں صرف 6 رنز دے کر فخر زمان کی قیمتی وکٹ بھی حاصل کی۔

اب قلندرز کو جیت کے لیے 12 گیندوں پر 30 رنز درکار تھے۔ اب سے کچھ دیر قبل جو میچ لاہور واضح طور پر جیتتا نظر آرہا تھا، اب اس پر کراچی نے پنجا مار دیا تھا، یعنی اب جیت کسی کی بھی ہوسکتی تھی، لیکن اس کا سارا دار و مدار ان آخری 2 اوورز پر تھا۔

اننگ کا 19واں اوور محمد عامر نے کروایا۔ اس اوور سے قبل عامر نے شاندار باؤلنگ کی تھی لیکن اس اوور میں وہ ڈیوڈ ویزے کے سامنے بے بس نظر آئے۔ اس اوور میں پہلے بلے کے کنارے سے لگ کر بال 2 مرتبہ کیپر کے پیچھے باؤنڈری لائن پار کرگئی اور پھر ویزے نے ایک فلک شگاف چھکے لگا کر میچ ایک بار پھر اپنی ٹیم کے حق میں کردیا۔

عامر نے اس اوور میں 20 رنز دیے۔ یہ ان کے ٹی20 کیریئر میں پہلا موقع ہے جب انہوں نے ایک اوور میں 20 رنز دیے ہوں۔ آخری اوور میں قلندر کو جیت کے لیے 10 دس رنز درکار تھے جو ویزے نے پہلی 2 گیندوں میں زبردست چھکوں کی مدد سے حاصل کرلیے۔

ٹاس جیتنے والی ٹیم کا میچ جیتنے کا سلسلہ برقرار

پی ایس ایل کے اس سیزن میں اب تک 11 میچ کھیلے گئے ہیں اور تمام ہی میچ ہدف کا تعاقب کرنے والی ٹیموں نے جیتے۔

ایک طرف تو یہ بات درست ہے کہ 'ٹاس جیت جاؤ، میچ جیت جاؤ' کی صدائیں ٹورنامنٹ کا مزا خراب کررہی ہیں لیکن دوسری جانب اہم بات یہ ہے کہ پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیمیں زیادہ تر میچوں میں اننگ کا تسلی بخش اختتام کرنے میں مسلسل ناکام رہی ہیں اور ان کی اس ناکامی کی وجہ سے پہلے باؤلنگ کرنے والی ٹیموں کو میچ جیتنے میں کسی حد تک آسانی ہورہی ہے۔

دوسرا عنصر کپتانی کا بھی ہے۔ ابھی تک ہونے والے تمام ہی میچوں میں کوئی بھی کپتان غیر روایتی کپتانی کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ بات بھی محسوس کی گئی ہے کہ کپتانوں کو مخالف کھلاڑیوں کی کمزوریوں کے بارے میں بھی زیادہ علم نہیں ہے۔ آنے والے میچوں میں اگر کپتان ہدف کا دفاع کرنا چاہتے ہیں تو ان کو نئی حکمتِ عملی کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا۔ ان کو یہ جانچنا ہوگا کہ کس طرح وہ ٹاس کی حاکمیت کو ختم کرسکتے ہیں اور کس طرح پہلی اننگ میں بنائے گئے رنز کا دفاع کرسکتے ہیں۔

خرم ضیاء خان

خرم ضیاء خان مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: KhurramZiaKhan@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Talha Mar 01, 2021 04:34pm
2 number league hai yeh…..

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024