سعودی عرب نے جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق امریکی رپورٹ مسترد کردی
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان پر امریکی شہری جمال خاشقجی کے قتل کے احکامات جاری کرنے کے الزامات عائد کرنے کے حوالے سے امریکی رپورٹ کو سختی سے مسترد کردیا۔
سعودی خبر رساں ادارے ایس پی اے کے مطابق وزارت خارجہ نے جمعے کو بیان میں کہا کہ’ سعودی حکومت جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق امریکی کانگریس کو پیش کی جانے والی رپورٹ کے مندرجات کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے‘۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز جاری ہونے والی امریکی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے آپریشن کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے منظوری دی تھی۔
مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کے قتل کے آپریشن کی سعودی ولی عہد نے منظوری دی، امریکی رپورٹ
ان کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق کانگریس کو پیش کی جانے والی رپورٹ کی بابت کی جانے والی چہ میگوئیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’سعودی حکومت مبینہ رپورٹ میں سعودی قیادت سے متعلق منفی، غلط اور ناقابل قبول نتائج کو قطعی طور پر مسترد کرتی ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ نتائج کسی بھی حالت میں قابل قبول نہیں ہیں، رپورٹ بہت ساری غلط معلومات اور نتائج پر مشتمل ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمیں یقین ہے کہ سعودی عرب اور امریکا کے درمیان شراکت مضبوط اور مستحکم ہے، دونوں ملکوں کے درمیان شراکت ایک دوسرے کے احترام کی بنیاد پر قائم ہے'۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ’ دونوں ملکوں کی اسٹریٹجک شراکت کا طاقتور اسٹرکچر تشکیل دینے والی یہ مضبوط بنیادیں برقرار رہیں گی‘۔
یہ بھی پڑھیں: جمال خاشقجی قتل کیس: مجرموں کی سزائے موت قید میں تبدیل
واضح رہے کہ امریکی سعودی تعلقات کو پہنچنے والے نقصان کو محدود کرنے کے لیے جاری کی گئی امریکی انٹیلی جنس جائزے کی رپورٹ کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صحافی جمال خاشقجی کو پکڑنے یا قتل کرنے کے لیے آپریشن کی منظوری دی تھی۔
امریکی دفتر برائے قومی انٹلیجنس کے ڈائریکٹر کے دفتر نے اپنی ویب سائٹ پر شائع رپورٹ میں کہا کہ 'ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے استنبول میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کو پکڑنے یا مارنے کے لیے ایک آپریشن کی منظوری دی ہے'۔
جو بائیڈن انتظامیہ سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی عرب کے شہریوں کو نشانہ بناتے ہوئے پابندی عائد کرنے کا اعلان کرے گی تاہم یہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر پابندیاں عائد نہیں کرے گی۔
مزید پڑھیں: جمال خاشقجی کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں، سعودی ولی عہد
بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس نقطہ نظر کا مقصد مشرق وسطی میں کوئی بنیادی رشتہ توڑے بغیر سعودی ریاست کے ساتھ تعلقات کے نئے باب کا آغاز کرنا ہے۔
59 سالہ جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر 2018 کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں لالچ میں لایا گیا تھا اور انہیں سعودی ولی عہد سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک ٹیم نے ہلاک کردیا تھا۔
اس کے بعد انہوں نے اس کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا اور جمال خاشقجی کی باقیات کبھی نہیں ملی۔
انتظامیہ کے عہدیدار نے بتایا کہ امریکی محکمہ خزانہ سابق نائب سعودی انٹیلی جنس چیف احمد العسیری اور سعودی رائل گارڈ کی ریپڈ انٹروینشن فورس پر پابندیوں کا اعلان کرے گا۔
امریکی انٹیلی جنس رپورٹ میں ریپڈ انٹروینشن فورس کا جمال خاشقجی کے قتل میں اہم کردار بتایا گیا ہے۔