!او ہیلو بھائی جان
میں بہت عرصے سے ایسے کچھ فتوے سوشل میڈیا پر دیکھتا آ رہا ہوں جن میں مجھ جیسے گمراہ مسلمانوں کو یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی ترقی جہاں ٹی وی اور ڈش جیسے بہت سے طریقوں سے ہمیں دوزخ کا ایندھن بنانے کی کوشش یا یوں کہیے کہ سازش کر رہی ہے وہیں بہت سے مسلمان فون کے تار سے بندھے بھی جہنم کی طرف کھنچے چلے جا رہے ہیں۔
نائٹ پیکجز اور فری منٹ جیسی برائیاں تو خیر موبائل ٹیکنالوجی کی گردن پر ہیں لیکن فون سے متعلق ایک گناہ ایسا بھی ہے جس کی روایت نوکیا 3310 سے زیادہ پرانی اور جس کا وزن ایرکسن کے اس اینٹ نما سیٹ سے زیادہ ہے جسے اٹھانے کو صاحب حیثیت حضرات سیکرٹری رکھا کرتے تھے۔
بے تار فون سے بھی زیادہ پرانا یہ گناہ جو انسان کو تین منٹ کی ٹرنک کال ختم ہونے سے پہلے تباہی کے گڑھے میں گرا سکتا ہے ہیلو کہنے کا گناہ ہے۔
فیس بک مفتی ہمیں یہ بتایا کرتے ہیں کہ سائنس کی ترقی کے ہاتھوں وہ زمانہ آ چکا ہے کہ بیل بجتے ہی لاکھوں مسلمان فون کے چونگے یا بلیو ٹوتھ ہیڈ سیٹ میں ہیلو جیسا مردود لفظ بول کے نہ صرف دوسروں کو جہنم میں جانے کی بد دعا دے رہے ہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ اپنے جہنم میں جانے کا سامان بھی کر رہے ہیں۔
فیس بک مفتیوں کے ان فتووں سے ڈر کے میں نے اپنے فون پہ فردوس کی جنتی لان کے تعاون سے ثواب کی پڑیاں بانٹنے والے ہومیو پیتھک ڈاکٹر کی آواز میں ریکارڈ کی گئی ایک ترانہ نما نعت رنگ ٹون کے طور پر لگا لی تھی۔ رنگ ٹون کے ذریعے تبلیغ کا یہ مذہبی فریضہ ادا کرتے ہوئے میں کسی کا فون آنے پر یوں محسوس کیا کرتا تھا جیسے میں کسی شرعی سوال کا حلال جواب دے کر انعام میں ملنے والی موٹر سائیکل پہ بیٹھا ستّر نیکی فی کلومیٹر کی رفتار سے جنّت میں جا رہا ہوں۔
شیطان کے خلاف پری ایمپٹو سٹرائیک کے اس ڈاکٹرائن پہ عمل کے باوجود فتوے کا خوف ایسا تھا کہ ہر کال پہ بجنے والی نعت ختم ہوتے ہی مجھے یوں لگتا تھا جیسے کال ریسیو کروں گا تو فون کا سپیکر محلے کی مسجد کا سپیکر بن جائے گا اور اس میں سے جہنم کے دروغے کی آواز میں مجھے عید کی مبارکباد کے فورا بعد یہ بتایا جائے گا کہ سحری نشریات میں بے سرے فنکاروں کو برداشت کرنے کی وجہ سے آپ کے باقی گناہ تو معاف کیے جا سکتے ہیں لیکن جہنم کو دن میں کئی بار یاد کرنے کی وجہ سے آپ کو قرعہ اندازی میں وہیں کا ٹکٹ دیا جا رہا ہے۔
اس خوف کا سبب یہ تھا کہ میں نے اس بار رمضان میں صحیح قرات کے ساتھ السلام و علیکم کہنا تو سیکھ لیا تھا لیکن فوں اٹھاتے ہی وہ مردود لفظ کہنے کی عادت سے میں جہنم سے آزادی کے عشرے میں بھی جان نہیں چھڑا پایا تھا۔
بھلا ہو ایک دوست کا کے جس نے فیس بک پر فتوے پوسٹ کرنے والے علماء کے بارے میں یہ بتا کر کہ جو لوگ یہودیوں کی بنائی ہوئی فیس بک پر اکاؤنٹ بنا رہے ہوں وہ چاہے کتنے بھی علّامہ لگتے ہوں انہیں عالم نہیں ماننا چاہیے دل کا بوجھ کچھ ہلکا کر دیا لیکن اپنی ایسی قسمت کہاں۔
نار جہنم سے آزادی کے اس لطف کو میں ابھی پوری طرح محسوس بھی نہیں کر پایا تھا کہ اگست کی 6 تاریخ آن پہنچی۔ میں نے 6 اگست کو اپنی طرح کے کسی فیس بک مفتی نہیں بلکہ ایک جید دانشور کا کالم پڑھا تو پھر سے دل پہ لرزہ طاری ہو گیا۔
دین اور دنیا دونوں کے یہ عالم اپنے کالم کا آغاز ٹوپیاں سی کر روزی کمانے والے بادشاہ کے کسی قصے سے کیا کرتے ہیں سوائےان دنوں کے جب وہ چھٹیاں منانے سوئزرلینڈ گئے ہوئے ہوں۔ ٹوپی فروش بادشاہوں کے قصوں سے وہ عام طور پر مجھ جیسوں کی عقل اور تاریخ کا کوئی اہم سبق نکالتے ہیں۔
6 اگست کے کالم میں انہوں نے تاریخ کی زندہ و جاوید مثالیں دے کر جہاں اور بہت کچھ ثابت کیا تھا وہیں اپنی سائنسی تحقیق سے اس فیس بک فتوے کی تصدیق بھی کی تھی جس کے مطابق ہیلو کا لفظ جہنم کے لیے استعمال ہونے والے انگریزی لفظ ہیل سے نکلا ہے۔
اس تصدیق کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس لفظ کی ایجاد کے سہرا گراہم بیل کے ان سننے والوں کے سر باندھا تھا جو اسے فون میں خرابی کی وجہ سے ہیل ہیل کہتے سن کر یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ ہیلو کہہ رہا ہے۔
اتنے جید صحافی اور عالم کی تحقیق پر شک کی گنجائش تو نہیں تھی لیکن میں اتفاق سے یہ کالم انٹرنیٹ پر پڑھ رہا تھا شیاد اس لیے شیطان میرے دل میں کئی میگا بائٹ کا وسوسہ اپ لوڈ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس مردود کے اکسانے پر میں نے یہودیوں کی ایک اور سازش گوگل کا سرچ انجن کھول لیا اور ہیلو کو تلاش کرنا شروع کر دیا۔
شروع میں دوسرا تیسرا لنک وکی پیڈیا کا کھل گیا جس میں بتایا گیا تھا کہ ہیلو کا لفظ فون کی ایجاد سے کوئی چالیس سال پہلے سے انہی سپیلنگز کے ساتھ استعمال ہو رہا ہے اور یہ بھی کہ یہ لفظ جرمن زبان سے انگریزی میں آیا ہے۔
اپنی کامیابی دیکھتے ہی شیطان نے ایک دم چھاتی پھلا لی اور شک کے سانپ نے سر اٹھا کر کہا کے دیکھا تم نے اس دانشور کی غلطی پکڑ لی۔ دل میں یہ خیال بھی آیا کہ ٹوپی فروش بادشاہوں کے بارے میں بھی اس کی تاریخی تحقیق نے نجانے کتنے بھولے بادشاہوں کو ٹوپی پہنائی ہو گی ۔
میں شک میں پڑ کے تمام فیس بک مفتیوں اور اخباری سائنسدانوں سے متنفر ہونے ہی والا تھا کہ میرے اندر ایک دم گھنٹی بجی، کال میرے ضمیر کی تھی، کہنے لگا، او ہیلو بھائی جان یہ انٹرنیٹ بنا ہی اس لیے ہے کہ ہمیں اپنے سائنسدانوں، عالموں اور اپنے بڑے بزرگوں کے بارے میں شک میں ڈالے اور یہ مردود وکی پیڈیا! یہ بھی تو ایک سازش ہے وکی لیکس کی طرح۔۔۔
شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں













لائیو ٹی وی
تبصرے (5) بند ہیں