• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

2018 سینیٹ الیکشن اسکینڈل کی تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی

شائع February 22, 2021
سینیٹ انتخابات 3 مارچ کو ہونے ہیں—فائل فوٹو: اے ہی پی
سینیٹ انتخابات 3 مارچ کو ہونے ہیں—فائل فوٹو: اے ہی پی

اسلام آباد: سینیٹ انتخاب 2018 کی لیک ویڈیو کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی 3 رکنی وزارتی کمیٹی ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں دکھا سکی حالانکہ وزیراعظم نے 2 سال قبل مبینہ طور پر یہ کلپ دیکھ لی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی کا دوسرا اجلاس بدھ کو ہونا ہے، اس سے قبل 12 فروری کو اس کا پہلا اجلاس ہوا تھا۔

واضح رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری، وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری اور وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔

خیال رہے کہ عمران خان نے 2 سال قبل پی ٹی آئی سے 20 ایم پی ایز کو نکال دیا تھا اور اس مہینے ویڈیو کے میڈیا میں لیک ہونے کے بعد ایک اور قانون ساز کو بھی ہٹا دیا تھا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے نہیں ہوئے تو اپوزیشن والے ہی روئیں گے، وزیراعظم

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کچھ سینئر رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ ویڈیو میں جو گھر دیکھا گیا وہ اسلام آباد میں ہے اور یہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے اسپیکر کی رہائشگاہ نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ 2018 میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے 21 پی ٹی آئی اراکین کے ووٹوں کو خریدنے میں ’ارب پتی‘ ملوث تھے اور وہ 3 مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات کے لیے اپنے مکروہ دھندے میں دوبارہ متحرک ہوگئے ہیں۔

اس حوالے سے جب فواد چوہدری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ کمیٹی بدھ کو ملاقات کرے گی اور ’دیکھیں کیا ہوتا ہے‘۔

انہوں نے اتفاق کیا کہ پی ٹی آئی ایم پی ایز کی وفاداریاں کس نے خریدی تھیں؟ اس سے متعلق کمیٹی کے سامنے ابھی تک کچھ نہیں آیا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ وفاقی دارالحکومت میں اس گھر کے مقام کے بارے میں جانتے ہیں جہاں ڈیل ہوئی تھی جیسا کہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سمیت مختلف پی ٹی آئی رہنماؤں کا دعویٰ ہے تو اس پر وفاقی وزیر نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ کمیٹی اپنے کام کے دائرہ کار، اس کی ٹرم آف ریفرنس اور اسکینڈل میں ملوث افراد کی مجرمانہ ذمہ داری کا تعین کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی ووٹوں کی خرید و فروخت کرنے والوں کی شناخت کا پتا لگانے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی اور پولیس کی مدد حاصل کرسکتی ہے۔

وفاقی وزیر نے اپوزیشن کے اس دعوے کو مسترد کردیا کہ وزیر دفاع پرویز خٹک اور اسپیکر اسد قیصر اس اسکینڈل میں ملوث تھے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اپوزیشن کے جھوٹے دعووں کو اہمیت نہیں دینی چاہیے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پہلے ہی مبینہ طور پر رقم لے کر اپنی وفاداریاں فروخت کرنے والے 21 ایم پی ایز کو جماعت سے نکال چکی ہے اور اب کمیٹی ان چہروں کو بے نقاب کرے گی جنہوں نے انہیں خریدا تھا۔

کمیٹی کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ وہ اسکینڈل سے متعلق حقائق کا پتا لگائے اور ایک ماہ میں اپنی سفارشات وزیراعظم کو جمع کروائے۔

یہ بھی پڑھیں: ویڈیو اسکینڈل: وزیر قانون خیبر پختونخوا اپنے عہدے سے مستعفی

دوسری جانب شہزاد اکبر پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ بظاہر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اس اسکینڈل کے پیچھے تھے۔

تاہم پیپلزپارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے اس الزام کو مسترد کردیا اور کہا کہ 2 ایم پی ایز کا دعویٰ تھا کہ پرویز خٹک اور اسد قیصر نے اپنی ہی جماعت کے قانون سازوں کی وفاداریاں خریدیں تاکہ وہ دیگر جماعتوں کے حق میں ووٹ نہیں ڈالیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ ایم پی ایز کو خریدا گیا تھا تاکہ وہ اپنی جماعت کے ساتھ وفادار رہیں۔


یہ خبر 22 فروری 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024