دھمکیاں دینے والا احسان اللہ احسان فرار کیسے ہوا، ملالہ یوسف زئی
ملالہ یوسف زئی نے کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے فرار ہونے پر سوال کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر لوگوں کو دھمکیاں دے رہا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ملالہ یوسف زئی نے کہا کہ 'تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان نے کئی معصوم افراد اورمیرے اوپر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی'۔
مزید پڑھیں: احسان اللہ احسان کو ایک آپریشن میں استعمال کررہے تھے کہ وہ فرار ہوگیا، ترجمان پاک فوج
انہوں نے لکھا کہ 'وہ اب سوشل میڈیا پر لوگوں کو دھمکیاں دے رہا ہے'۔
ملالہ یوسف زئی نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ 'ڈی جی آئی ایس پی اور عمران خان! وہ کیسے فرار ہوا'۔
ملالہ یوسف زئی ٹوئٹر پر احسان اللہ احسان نامی ایک اکاؤنٹ کا حوالہ دے رہی تھیں، جس میں انہیں مخاطب کرکے کہا گیا تھا کہ 'ملالہ جی! آپ جلد اپنے پہلے گھر تشریف لائیے، آپ اور آپ کے والد صاحب کے ساتھ ابھی بہت سارا حساب باقی ہے'۔
مذکورہ اکاؤنٹ میں کہا گیا کہ 'آپ کے ذمہ جو قرض واجب الادا ہے وہ آپ سے وصول کرنا ہے، اس دفعہ حساب کتاب کے لیے ماہر بندہ بھیج دیا جائے گا تاکہ کوئی شک باقی نہ رہے'۔
خیال رہے کہ ملالہ یوسف زئی نے بی بی سی اردو کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ' سوات پاکستان ہمیشہ پہلا گھر ہے اور وہ مجھے اپنی جان سے عزیز ہے، میری خواہش ہے کہ میں جلد پاکستان جاؤں اور دوبارہ اپنا گھر دیکھوں'۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ: احسان اللہ احسان پر مقدمہ چلانے میں ناکامی پر ریاستی اداروں سے جواب طلب
انہوں نے کہا کہ 'میں جب برطانیہ آئی تو میرے لیے یہ ثقافت بالکل نئی تھی اور میں یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ یہاں کی موسیقی اور فنون لطیفہ میں کیا چیز مجھے اچھی لگتی ہے کیا نہیں'۔
ملالہ یوسف زئی پر نامعلوم افراد نے 9 اکتوبر 2012 کو سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کے قریب حملہ کردیا تھا، ان کے ساتھ مزید دو طالبات بھی زخمی ہوئی تھیں اور بعد ازاں حملے میں طالبان کے ملوث ہونے کے شواہد ملے تھے۔
حملے میں شدید زخمی ہونے کی وجہ سے بعد ازاں ملالہ یوسف زئی کو علاج کے لیے برطانیہ منتقل کردیا گیا تھا اور پھر وہ وہیں پر ہی رہائش پذیر ہوگئیں اور انہیں برطانیہ میں رہائش کے دوران ہی نوبیل انعام اور ستارہ شجاعت سمیت دیگر کئی عالمی ایوارڈز سے نوازا گیا۔
ملالہ یوسف زئی نے برطانیہ میں رہائش کے دوران ہی معروف آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا، جہاں سے انہوں نے رواں برس جون میں 22 سال کی عمر میں گریجوئیشن کی تعلیم مکمل کی تھی۔
یاد رہے کہ 17 اپریل 2017 کو پاک فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے خود کو سیکیورٹی فورسز کے حوالے کردیا۔
گزشتہ برس فروری کے آغاز میں ایسی خبریں سامنے آئی تھیں کہ احسان اللہ احسان مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز کی حراست سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
بعدازاں 17 فروری کو سابق وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے احسان اللہ احسان کے فرار سے متعلق میڈیا میں چلنے والی خبروں کی تصدیق کی تھی۔
مزید پڑھیں: احسان اللہ احسان نے خود کو فورسز کے حوالے کردیا: پاک فوج
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی فروری 2020 میں پہلی مبینہ آڈیو ٹیپ سامنے آئی تھی جس میں انہوں نے 11 جنوری 2020 کو 'پاکستانی سیکیورٹی اتھارٹیز کی حراست سے’ فرار ہونے کا انکشاف کیا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ترکی میں موجود ہیں جبکہ متعدد ذرائع کا ماننا ہے کہ دہشت گرد گروہ کے سابق ترجمان افغانستان میں ہیں۔
آڈیو پیغام میں کالعدم تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے نام سے مشہور لیاقت علی کا کہنا تھا کہ میں نے پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے سامنے 5 فروری 2017 کو ایک معاہدے کے تحت ہتھیار ڈالے تھے۔
انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ میں نے اپنی طرف سے وعدوں کی پاسداری کی لیکن پاکستانی عہدیداروں پر اس کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اور میرے اہل خانہ کو قید میں رکھا گیا۔
بعدازاں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے احسان اللہ احسان کے مبینہ طور پر ملک سے فرار ہونے پر تفصیلی رپورٹ طلب کی تھی اور 13 فروری کو شہدائے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پشاور کے لواحقین نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد سے رجوع کیا تھا.
چیف جسٹس کو اپنی درخواست میں سانحے میں شہید ہونے والے 15 طلبہ کے لواحقین نے کہا تھا کہ 'ہم لواحقین احسان اللہ احسان کے سرکاری تحویل میں تقریباً تین سال گزارنے کے بعد اہلخانہ سمیت مبینہ طور پر فرار ہونے کی خبر سن کر سخت صدمے میں ہیں'۔
مزید پڑھیں: احسان اللہ احسان کے 'فرار' کا معاملہ: شہدا اے پی ایس کے لواحقین کا چیف جسٹس سے رجوع
درخواست میں کہا گیا تھا کہ سفاک دہشت گرد نے آرمی پبلک اسکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کی جس میں 147 طلبہ اور اساتذہ شہید ہوئے۔
گزشتہ برس اگست میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے فرار اور اس کے بعد مبینہ آڈیو ٹیب سے متعلق سوال پر تصدیق کردی تھی کہ ایک آپریشن کے دوران احسان اللہ احسان کو استعمال کیا جارہا تھا اور وہ اس دوران فرار ہوگیا۔
پریس بریفنگ کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے احسان اللہ احسان کی مبینہ آڈیو ٹیپ میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'مبینہ آڈیو ٹیپ میں لگائے گئے الزامات کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں، وہ مکمل طور پر بے بنیاد ہیں'۔