صدارتی ریفرنس: الیکشن کمیشن سے انتخابات میں شفافیت سے متعلق تجاویز طلب
سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس میں الیکشن کمیشن سے انتخابات میں شفافیت سے متعلق تجاویز طلب کرلیں۔
عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کی، اس دوران عدالت کی جانب سے طلب کرنے پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا اور دیگر اراکین کمیشن پیش ہوئے۔
اس 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ ساتھ جسٹس مشیر عالم، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل ہیں۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پوچھا کہ چیف الیکشن کمشنر بتائیں گزشتہ روز کے عدالتی حکم پر آپ کا کیا جواب ہے، جس پر سکندر سلطان راجا کا کہنا تھا کہ ہم نے رپورٹ جمع کروادی ہے، عدالت نے الیکشن اسکیم سے متعلق سوال کیا تھا، کرپٹ پریکٹس کے تدارک کے حوالے سے کچھ طریقہ کار تیار کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے کہ کرپٹ عمل کے خلاف کارروائی عمل میں لائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے انتخاب میں ہر قسم کی کرپٹ پریکٹس کو روکنا ہے۔
مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات ریفرنس: سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کو طلب کرلیا
ساتھ ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے چیپڑ 10 میں درج ہے کہ آپ نے کرپٹ پریکٹس کو روکنا ہے، الیکشن کمیشن نے کرپٹ پریکٹس کے تدارک کے لیے کیا اسکیم بنائی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آپ نے صاف و شفاف انتخابات کروانے ہیں اور الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کا تدارک کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات سے قبل اور بعد میں سیاسی مداخلت سمیت کرپٹ پریکٹس کے لیے گارڈ کا لفظ ہے۔
اپنے ریمارکس میں جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کرپٹ پریکٹس کو گارڈ کرنے کا مطلب ہے کہ الیکشن سے پہلے حفاظتی انتظامات کیے جائیں، انتخابات میں سیاسی مداخلت اور پیسے کا استعمال ہوتا ہے، الیکشن کمیشن مینکانزم بتائے کہ کیسے کرپٹ پریکٹس کو روکا جائے۔
اسی اثنا میں چیف جسٹس گلزار احمد نے بھی یہی سوال کیا کہ الیکشن کمیشن بتائے کہ انتخابات میں کرپٹ پریکٹس کیسے روکیں گے، الیکشن ایکٹ میں کسی بھی کرپٹ پریکٹس سے متعلق واضح نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں پوری اسکیم بتائی جائے کہ انتخابات کیسے شفاف ہوں گے، جس پر چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اپنے اختیارات کے تحت تمام کرپٹ پریکٹسز کو روکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انتخابات سے پہلے اور بعد میں شکایت پر کارروائی کی جاتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر آپ بات کی گہرائی کو سمجھ نہیں رہے۔
اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ عدالت کو تحریری جواب جمع کروا چکے ہیں، انتخابات سے کرپشن کو ختم کرنے کا طریقہ کار ایکٹ میں موجود ہے، الیکشن کمیشن نے اپنی آئینی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔
ان کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی عمل سے کرپشن ہر حال میں روکنا ہوگی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے شاید ہمارا کل کا حکم سمجھنے کی کوشش نہیں کی، آپ کو معلوم نہیں پاکستان میں الیکشن کیسے ہوتا ہے۔
اس موقع پر سماعت کے دوران وکیل الیکشن کمیشن نے بولنا چاہا جس پر عدالت نے انہیں روکتے ہوئے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر خود جواب دیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوڈ آف کنڈکٹ بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، ساتھ ہی جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ دینے پر کارروائی نہیں ہوسکتی۔
عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس کے ریمارکس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ مانٹرینگ اورپولیٹیکل فنانس ونگ کو مضبوط کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس: ہم آئین کے محافظ ہیں، چیف جسٹس
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ افسران کے کرنے کا کام ہے، آپ خود کیا کرتے ہیں۔
دوران سماعت چیف الیکشن کمشنر نے مؤقف اپنایا کہ بیلٹ پیپر پر ووٹر کا سیریل نمبر نہیں ہونا چاہیے، اگر ووٹر کے بارے میں معلوم کرنا بھی ہے تو آئینی ترمیم کی جائے، ہم نے سینیٹ انتخابات سے متعلق بہت غور و خوض کیا ہے۔
ان کی بات پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کیا آپ کے اقدامات انتحابی عمل سے کرپشن روک سکتے ہیں، کیا آپ کے ابھی تک کیے گئے اقدامات کافی ہیں؟ ساتھ ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا ووٹ ڈالنے کے بعد ووٹ کو ہمیشہ کے لیے خفیہ رکھا جاسکتا ہے۔
اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ماضی میں بیلٹ پیپر پر نشان لگانے کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے، قابل شناحت بیلٹ پیپرز کی قانون میں گنجائش نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ووٹ ڈالنے کے بعد خفیہ نہیں رہ سکتا۔
طویل سماعت کے دوران ووٹوں کی خرید و فروخت پر چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمشن ووٹوں کی خرید و فروخت کا نوٹس لے چکا ہے، ویڈیو کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس بلا لیا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ویڈیو کا جائزہ لیں گے کہ فرانزک کرانا ہے یا نہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 2018 سے ویڈیو موجود ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
ساتھ ہی جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ 2018 کی ویڈیو کا الیکشن کمیشن کو آج پتا چلا؟ اس دوران انہوں نے یہ مصرع پڑھا کہ ’جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے‘، اور سوال کیا کہ کیا الیکشن کمشن نے کسی سینیٹر کو نااہل کیا؟ کیا گزشتہ انتحابات میں ووٹوں کی خرید و فروخت کی شکایت نہیں تھی؟
اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کرم میں ضمنی انتحابات میں کرپٹ پریکٹس پر نوٹس لیا، کل سیاسی جماعت کے جلسے میں اراکین اسمبلی کی شرکت کا بھی نوٹس لیا۔
چیف الیکشن کمشنر نے بتایا کہ ہر اُمیدوار کو الگ بینک اکاؤنٹ کھولنے کا کہا ہے، اُمیدوار کی اہلیت جاننے کے لیے نیب، ایف آئی اے سے ڈیٹا لیں گے، نادرا اور اسٹیٹ بینک، ایف بی آر سے بھی اُمیدواروں کے کوائف لیں گے۔
ان کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے صرف دفتر میں بیٹھ کر کام نہیں کرنا، آپ کوئی سرکاری ادارہ نہیں ہیں۔
عدالت میں سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف الیکشن کمشنر سے پوچھا کہ آپ کے نزدیک خفیہ رائے شماری کیا ہوتی ہے، جس کے جواب میں سکندر سلطان راجا نے کہا کہ خفیہ ووٹ وہ ہے جس کے ڈالنے والے کا علم نہ ہو، اس پر جسٹس اعجاز نے کہا کہ قانون میں بیلٹ پیپر پر مہر لگانے کے عمل کو خفیہ رکھنے کا کہا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات صدارتی ریفرنس: عدالت نے تشریح کی تو سب پابند ہوں گے، سپریم کورٹ
ساتھ ہی جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن ارکان سے ووٹ نہ خریدنے کا حلف لے سکتا ہے، کیا الیکشن کمیشن نے رشوت دینے پر شکایت درج کرانے کا کہا، کیا اُمیدواروں کو ایک دوسرے کے خلاف شکایت کا موقع دیا۔
جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ مانیٹرنگ ٹیمیں اور ڈی آر اوز شکایات کرتے رہتے ہیں۔
اپنی بات کے دوران چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ قومی اسمبلی کے بیلیٹ پیپرز قابل شناخت نہیں ہوتے، ساتھ ہی چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن انتخابی عمل سے کرپشن ختم نہیں کرنا چاہ رہا؟ روزانہ دیکھیں الیکشن کے حوالے سے کیا ہو رہا ہے، کیا الیکشن کمیشن نے عوام کو شفاف الیکشن کرانے کی تسلی دی ہے۔
اس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ووٹ کو خفیہ رکھنے کا معاملہ زیر بحث لائیں گے۔
اس موقع پر عدالت عظمیٰ میں موجود اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے شفاف انتخابات کے لیے تجاویز الیکشن کمیشن کو دے دیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی تجاویز کا جائزہ لیں۔
تاہم اسی دوران کیس کے فریق رضا ربانی نے مؤقف اپنایا کہ اٹارنی جنرل کی تجاویز پی ٹی آئی کی تجاویز تصور ہوں گی، تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ہوگا، وقت کم ہے قانون میں ترمیم نہیں ہو سکتی۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کسی قانون میں تبدیلی کا نہیں کہہ رہے، شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے، تمام سیاسی لیڈرز سینیٹ الیکشن میں کرپشن کی بات کرتے ہیں، الیکشن کمیشن کو سب معلوم ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ جو ہوگا الیکشن کے بعد دیکھیں گے، ووٹوں کی خرید و فروخت الیکشن سے پہلے ہوتی ہے۔
ساتھ ہی جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ موجودہ قانون کے تحت ہی کرپشن روکنے کا کہہ رہے ہیں، الیکشن کمیشن کے پاس رولز بنانے کا مکمل اختیار ہے، الیکشن کمیشن آزاد اور آئین کے تحت مکمل با اختیار ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سکندر سلطان راجا کو کہا کہ آپ ابھی تک عدالت کے سوال کا جواب نہیں دے پائے، آپ ہمارا سوال سمجھنے کی کوشش کریں۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن نے قابل شناخت بیلٹ پیپرز کی مخالف کی اور چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ یہ نہیں بتا سکتے کہ ووٹ کس نے ڈالا، بیلیٹ پیپر پر سیریل نمبر نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ قابل شناخت بیلیٹ پیپر کے لیے آئین میں ترمیم کرنا ہو گی۔
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہم نہیں کہتے کہ آپ خفیہ بیلٹ کو تبدیل کریں، شکایت آنے پر الیکشن کمیشن معاملے کو خود دیکھ لے، جس پر سکندر سلطان راجا کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر الیکشن کمیشن میں مشاورت کر سکتے ہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن اس معاملے پر مشاورت کرے، ساتھ ہی عدالت نے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کرنا چاہی تو رضا ربانی نے اعتراض کیا اور جواب دینا چاہا۔
جس پر عدالت نے وقفہ ملتوی کردیا، اس پر رضا ربانی نے کہا کہ جو فیصلہ بھی کرنا ہے الیکشن کمیشن خود کرے۔
رضا ربانی کا کہنا تھا کہ حکومتی تجاویز پر عملدرآمد قبول نہیں کریں گیے، تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کر کے لائحہ عمل بنایا جائے، عوام، سیاسی جماعتیں اور عدالت شفاف الیکشن چاہتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ انتخابات سے متعلق صدارتی ریفرنس: پورے آئینی ڈھانچے کو جانچنا پڑے گا، چیف جسٹس
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سینیٹ الیکشن ملک میں پہلی بار نہیں ہورہے، دنیا میں شفاف الیکشن کے لیے کیا کچھ ہوتا ہے لیکن یہاں کچھ نہیں ہوا۔
اس دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری کوئی تجویز نہیں میں صرف عدالتی سوالوں کے جواب دوں گا اور اپنی تجاویز کھلی عدالت میں الیکشن کمیشن کے سامنے رکھنا چاہوں گا۔
بعد ازاں عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت کو کل تک کے لیے ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن انتخابات میں شفافیت یقینی بنانے سے متعلق معروضات جمع کروائے۔
عدالت نے کہا کہ ای سی پی کی رپورٹ اطمینان بخش نہیں، کمیشن معاملے کا جائزہ لے کر رپورٹ دے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن خاموش نہیں رہ سکتا ہے، الیکشن کمیشن آزاد ہے، الیکشن کمیشن تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر رپورٹ دے۔
یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 23 دسمبر کو صدر مملکت کی منظوری کے بعد سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کیا تھا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ میں ریفرنس بھجوانے کی وزیرِ اعظم کی تجویز کی منظوری دی تھی اور ریفرنس پر دستخط کیے تھے۔
عدالت عظمیٰ میں دائر ریفرنس میں صدر مملکت نے وزیر اعظم کی تجویز پر سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی تجویز مانگی ہے۔
ریفرنس میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے رائے دی جائے۔
مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات ریفرنس: 'جمہوریت برقرار رہتی تو شاید سیاست میں یوں پیسہ نہ چلتا'
وفاقی حکومت نے ریفرنس میں کہا تھا کہ خفیہ انتخاب سے الیکشن کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لیے سینیٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے۔
بعد ازاں قومی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک بل پیش کیا گیا تھا جہاں شدید شور شرابا کیا گیا اور اپوزیشن نے اس بل کی مخالفت کی، جس کے بعد حکومت نے آرڈیننس جاری کیا۔
صدر مملکت نے 6 فروری کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لیے آرڈیننس پر دستخط کیے اور آرڈیننس جاری کردیا گیا تھا، آرڈیننس کو الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021 نام دیا گیا ہے جبکہ آرڈیننس کو سپریم کورٹ کی صدارتی ریفرنس پر رائے سے مشروط کیا گیا ہے۔
آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعت کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کرسکے گا، اور واضح کیا گیا ہے کہ عدالت عظمیٰ سے سینیٹ انتخابات آئین کی شق 226 کے مطابق رائے ہوئی تو خفیہ ووٹنگ ہوگی۔
علاوہ ازیں آرڈیننس کے مطابق عدالت عظمیٰ نے سینیٹ انتخابات کو الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دیا تو اوپن بیلٹ ہوگی اور اس کا اطلاق ملک بھر میں ہوگا۔