’وہ سیلوٹ جس نے جابر طاقتوں کو پریشان کردیا‘
میانمار میں میڈیکل ورکرز جب فوجی قبضے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے باہر آئے تو انہوں نے ایک خاص قسم کا سیلوٹ کیا۔ اس سیلوٹ میں ہاتھ کی 3 انگیاں کھلی ہوئی تھیں جبکہ انگوٹھا اور چھوٹی انگلی بند تھی۔
ہمیں یہ سیلوٹ ماضی میں بھی مختلف احتجاجی مظاہروں میں نظر آیا ہے۔
اس سے پہلے 2014ء میں تھائی لینڈ میں فوجی بغاوت کے بعد ہونے والے احتجاج میں بھی مظاہرین نے یہی سیلوٹ کیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ سیلوٹ ہانگ کانگ، تائیوان اور دیگر ایشیائی ممالک میں بھی نظر آیا اور حقیقی دنیا میں اس کی تازہ مثال میانمار ہے۔
میں نے یہاں ’حقیقی دنیا‘ اس لیے لکھا ہے کیونکہ یہ سیلوٹ دراصل غیر حقیقی دنیا کا ہے۔ اس کا استعمال ہنگر گیمز نامی ناولوں اور فلموں میں دکھایا گیا تھا۔
مزید پڑھیے: ماضی میں ہر بار سرخرو رہنے والی آنگ سان سوچی اس بار کیا کریں گی؟
اس فرضی دنیا میں ایک ایسا امریکا دکھایا گیا تھا جہاں پینم نام کی آمرانہ حکومت موجود ہے۔ اس حکومت کی قیادت پُرتعیش کیپیٹل میں بیٹھا صدر کرتا ہے جبکہ باقی ملک کو غریب اضلاع میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ بے رحم اور سفاک پولیس کی مدد سے ان اضلاع کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھا جاتا ہے۔
لوگوں کو بغاوت کی قیمت یاد دلانے کے لیے ہر سال ہنگر گیمز کے نام سے ایک خونی کھیل کھیلا جاتا ہے۔ اس کھیل میں لاٹری کے ذریعے ہر ضلع سے ایک کھلاڑی منتخب ہوتا ہے اور پھر یہ کھلاڑی اپنی یا دوسرے تمام کھلاڑیوں کی موت تک اس کھیل میں شامل رہتا ہے اور اس کھیل کو ٹی وی پر براہِ راست دکھایا جاتا ہے۔
جیتنے والے کھلاڑی کو کیپیٹل میں پُرتعیش زندگی کی ضمانت دی جاتی ہے۔ یہ نظام درست طریقے سے چل رہا ہوتا ہے کہ کیٹنس ایورڈین نامی کھلاڑی ایک بار پھر لوگوں میں بغاوت کی آگ بھڑکا دیتی ہے اور اس کام کے لیے وہ وہی سیلوٹ استعمال کرتی ہے جسے آج ہم میانمار میں دیکھ رہے ہیں۔ اگرچہ میانمار میں ابھی اس پر کوئی ردِعمل نہیں آیا تاہم 2014ء میں تھائی انتظامیہ نے اس سیلوٹ پر پابندی لگادی تھی۔
لیکن ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ مقبولِ عام اور غیر حقیقی ثقافت کا کوئی نشان ہمیں حقیقی دنیا میں دکھائی دیا ہو۔
مثال کے طور پر گائے فاکس کا ماسک جس کا ذکر ایلین مور کے ناول ’وی فار وینڈیٹا‘ میں شامل ہے۔ بعد میں اس ناول پر فلم بھی بنی۔ اس فلم میں دکھائے جانے والے گائے فاکس کے ماسک کا پہلا استعمال اینونیمس نامی گروہ نے کیا۔ اس کے علاوہ یہ ماسک ’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘ تحریک، عرب بہار، تھائی لینڈ کے احتجاج کے علاوہ ترکی اور برازیل میں بھی دیکھنے میں آیا۔ اس ماسک کا استعمال لاک ڈاؤن اور ویکسین مخالف مظاہروں میں بھی نظر آیا۔
آخر ایک ماسک مختلف پس منظر رکھنے والے افراد کی توجہ کا مرکز کیسے بن سکتا ہے؟ ایلن مور کے ناول کا مرکزی کردار جسے صرف انگریزی حرف ’V‘ کے نام سے جانا جاتا تھا وہ فاشسٹ حکومت کے خلاف ہر ممکن طریقے سے لڑتا تھا۔
اسی طرح ہنگر گیمز میں بھی کیٹنس ایورڈین بغاوت کا آغاز کرنے میں کامیاب ہوئی۔ ’V‘ کا اصل چہرہ کبھی کسی کے سامنے نہیں آیا یہاں تک کہ اس کی موت کے بعد بھی۔ وہ ہمیشہ ایوری مین یا ہر شخص رہا اور یوں وہ طاقتوروں کے خلاف جدو جہد کا گمنام نشان بن گیا۔
ناول اور فلم کی طرح حقیقی دنیا میں بھی یہ ماسک ایک بہت اہم کام انجام دیتا ہے، اور وہ کام ہے اسے پہننے والے کی شناخت کو چھپانا۔ ایسے ممالک میں جہاں حکومتیں چہرہ شناسی کی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے حکومت مخالف افراد پر کریک ڈاؤن کرتی ہیں وہاں اس ماسک کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2013ء میں سعودی حکومت نے اسے ’بدلے اور بغاوت کی علامت‘ قرار دے کر اس کی درآمد اور استعمال پر پابندی عائد کردی۔ بعد میں یہی کچھ بحرین نے بھی کیا۔
مزید پڑھیے: کیا ہمارے حکمرانوں کی ریٹائرمنٹ کا وقت نہیں آگیا؟
غیر حقیقی کہانیوں میں اس طرح کی علامتوں کا خوب استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مارگریٹ ایٹ ووڈ کے ناول ہینڈمیڈز ٹیل اور اس پر بننے والی ڈرامہ سیریز کو ہی دیکھ لیجیے۔
اس کہانی میں ایک آمرانہ طرزِ حکومت کے حامل امریکا کو دکھایا گیا ہے جہاں عورتوں کو جنسی غلام کے طور پر رکھا جاتا ہے اور ان کا کام صرف اعلیٰ طبقے کے افراد کے لیے بچے پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ڈرامے میں ان ہینڈمیڈز کو سرخ کپڑوں اور سفید سرپوش میں دکھایا جاتا ہے اور بعد میں یہی لباس مغربی دنیا میں حقوق نسواں کے کارکنوں کی جانب سے اختیار کرلیا جاتا ہے۔
ہنگر گیمز اور گائے فاکس کا ماکس تو سیاسی علامتیں ہیں اور ہینڈمیڈز کا لباس ظلم کا نشان ہے لیکن پھر جوکر کا کردار اس قدر مقبول کیوں ہوا؟ ڈی سی کامک کے اس ولن کے کردار اور میک اپ کو بھی کئی ممالک میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں دیکھا گیا ہے۔
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جوکر ایک ظالم اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار معاشرے میں موجود انسانوں کا عکاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں بیروت میں یہ کردار جابجا نظر آیا۔ وہاں کے شہری اپنے شہر کو گوتھم شہر سے تشبیہہ دیتے ہیں اور جوکر کے کردار کو اشرافیہ اور غربا کے مابین جاری لڑائی کی علامت کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔
یہ علامتیں زبان اور خطوں کی رکاوٹ سے بالاتر ہوتی ہیں اور اس کی ایک وجہ مقبول ثقافت بھی ہے۔ ان علامتوں کو اختیار کرکے میانمار کے مظاہرین چلی میں سراپا احتجاج افراد کے ساتھ ایک رشتہ محسوس کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ ایک دوسرے سے بہت دُور ہوتے ہیں۔
یہ علامتیں جابر ریاستوں اور بے قابو اشرافیہ کے لیے ایک تنبیہہ بھی ہوتی ہیں۔ اگر ایلن مور کے الفاظ نقل کیے جائیں تو وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے حکمرانوں نے ایک طویل عرصے سے ہماری آواز نہیں سنی ہے اور اب یہ آواز بہت بلند ہوگئی ہے‘۔ خاص طور پر جب اس میں علامتیں شامل ہوجائیں۔
یہ مضمون 15 فروری 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (2) بند ہیں