مسئلہ کشمیر پر امریکا کی پالیسی تبدیل نہیں ہوئی، اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ
امریکا نے واضح کیا ہے کہ کشمیر سے متعلق امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور امریکا اب بھی جموں اور کشمیر کے خطے کو پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازع علاقہ سمجھتا ہے۔
امریکی حکومت کی جانب سے یہ وضاحت ایک نیوز بریفنگ کے دوران دی گئی جو امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کے سینئر عہدیداران کی جانب سے بیانات کے ایک تسلسل کے بعد ہوئی تھی، بیانات میں جنوبی اور وسطی ایشیائی ممالک کے لیے امریکی پالیسیوں کے خدوخال واضح کیے گئے تھے۔
ان ممالک میں بھارت، پاکستان، افغانستان اور چین شامل ہیں اور پالیسی کے خدوخال پاکستان اور افغانستان سے چین پر بتدریج زور کا اشارہ کرتے ہیں، یہ بیانات خطے میں چین کا اثر رسوخ روکنے کے لیے امریکا کے بھارت پر بڑے انحصار کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت مقبوضہ کشمیر میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے، امریکا
تاہم مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پالیسی کی وضاحت ظاہر کرتی ہے کہ جوبائیڈن حکومت پاکستان کے خدشات سے بھی بے نیاز نہیں ہیں۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس کو نیوز بریفنگ کے دوران محکمے کی جانب سے کی گئی ایک ٹوئٹ کی یاددہانی کروائی گئی جس میں خطے کی متنازع حیثیت کا ذکر نہیں تھا تو انہوں نے کہا کہ میں بہت واضح طریقے سے بتانا چاہتا ہوں کہ 'خطے میں امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے'۔
ایک صحافی نے مذکورہ بالا ٹوئٹ کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا تھا کہ کیا پالیسی تبدیل ہوئی ہے؟ کیا امریکا، کشمیر کو اب متنازع علاقہ نہیں سمجھتا؟ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کیا مؤقف میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی ہوئی ہے؟
جس ٹوئٹ کا ذکر کیا گیا وہ بھارت کی جانب سے متنازع خطے میں 4 جی موبائل انٹرنیٹ کی بحالی کے فیصلے کے خیر مقدم سے متعلق تھی کیوں کہ ٹوئٹ میں اس علاقے کو ''بھارت کا جموں کشمیر'' کہا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: چین-بھارت کے سرحدی تنازعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں، امریکا
ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ 'یہ مقامی افراد کے لیے ایک انتہائی اہم قدم ہے اور ہم جموں و کشمیر میں معمولات کی بحالی کے لیے جاری سیاسی اور معاشی پیشرفت کے منتظر ہیں'۔
نیوز بریفنگ میں شرکت کرنے والے صحافیوں نے اس بات کو نوٹ کیا اور ترجمان سے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی پوزیشن واضح کرنے کا کہا جس پر ترجمان نے بتایا کہ امریکا اب بھی جموں کشمیر کو متنازع علاقہ سمجھتا ہے۔
خیال رہے کہ 5 اگست 2019 کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی اور اس کے بعد سے وہاں 4 جی انٹرنیٹ سروسز مستقل طور پر بند تھی جسے 550 دن کے طویل وقفے کے بعد 7 فروری کو بحال کیا گیا تھا۔
بھارتی حکومت نے انٹرنیٹ سروسز سے پابندی تو ہٹادی لیکن ساتھ ہی پولیس حکام کو 'ان پابندیوں کے خاتمے سے پڑنے والے اثرات کا باریک بینی سے جائزہ لینے' کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: بائیڈن کا مودی سے ٹیلیفونک رابطہ، علاقائی سلامتی کو مستحکم کرنے پر اتفاق
نیوز برینفنگ کے دوران صحافیوں نے ترجمان اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ سے ٹوئٹر کی جانب سے ان 500 ٹوئٹر اکاؤنٹ بلاک کرنے کے فیصلے پر بھی تبصرہ کرنے کو کہا، جن پر بھارتی حکومت نے وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دینے کا الزام لگایا تھا۔
جس کے جواب میں ترجمان اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا کہ 'میں عمومی طور پر یہ کہوں گا کہ دنیا بھر میں ہم جمہوری اقدار کی حمایت کے لیے پر عزم ہیں جس میں آزادی اظہار بھی شامل ہے اور جہاں تک ٹوئٹر کی پالیسیوں کی بات ہے تو ہم آپ کو ٹوئٹر سے ہی رابطہ کرنے کا کہتے ہیں'۔
خیال رہے کہ تقسیم ہند کے نتیجے میں مسلمان اکثریت والے علاقوں کی پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے تحت جموں کشمیر کو بھی پاکستان کا حصہ بننا تھا تاہم اس وقت کے مہاراجہ کشمیر نے ہندو رہنماؤں کے ساتھ ساز باز کر کے کشمیر کو بھارت کے زیر انتظام دے دیا تھا۔
بعدازاں 1947 میں قبائل نے کشمیر کو آزاد کروانے کے لیے ایک جنگ لڑی تھی جس کے نتیجے میں آزاد کشمیر کا علاقہ پاکستان کے ساتھ شامل ہوگیا تھا۔
بین الاقوامی سطح پر کشمیر کا مسئلہ اجاگر ہونے کے بعد اقوامِ متحدہ نے کشمیر کی متنازع حیثیت کا فیصلہ کرنے کے لیے استصوابِ رائے کروانے کی قرارداد منظور کی تھیں جن پر آج تک عملدرآمد نہ ہوسکا جبکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں فوجی تعینات کر کے وادی کو جیل بنارکھا ہے۔
تاہم بھارتی آئین میں مقبوضہ وادی کو خصوصی حیثیت حاصل تھی لیکن بھارتی کی ہندو قوم پرست حکومت نے 5 اگست 2019 کو اسے بھی تبدیل کر کے کشمیر کے آبادیاتی ڈھانچے کو تبدیل کرنا شروع کردیا تھا۔