خیبرپختونخوا حکومت کا 2018 کے سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کی تحقیقات کا اعلان
پشاور: خیبر پختونخوا حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ حال ہی میں منظرعام پر آنے والی ویڈیو کی تحقیقات کرے گی جس میں صوبائی اسمبلی کے ممبران کو 2018 کے سینیٹ انتخابات میں وفاداریاں بدلنے کرنے کے لیے مطلوبہ رشوت کے طور نقدی وصول کرتے دیکھا گیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت کے ترجمان کامران خان بنگش نے ڈان کو بتایا کہ 'ہم (ہارس ٹریڈنگ) معاملے کی تہہ تک پہنچیں گے اور مقررہ وقت پر اس کے لیے ایک انکوائری کمیشن قائم کریں گے'۔
انہوں نے کہا کہ حکومت جوڈیشل کمیشن کی بجائے ایک آزاد انکوائری کمیشن تشکیل دے گی۔
مزید پڑھیں: وزیراعظم عمران خان کو پیسوں کی پیش کش کس نے کی؟
تحقیقات کا اعلان ہارس ٹریڈنگ کے بارے میں ریکارڈ شدہ ویڈیو سے متعلق دعووں اور جوابی دعووں کے تناظر میں سامنے آیا ہے کیونکہ ویڈیو میں دکھائے گئے چند قانون سازوں نے دعوٰی کیا ہے کہ نقد رقم اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی موجودگی میں خیبرپختونخوا اسمبلی کے اسپیکر کی سرکاری رہائش گاہ پر تقسیم کی گئی تھی۔
صوبائی حکومت نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے سینیٹ کی دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جس میں ایک جنرل اور ایک خواتین کے لیے مخصوص نشست شامل تھی، یہاں تک کہ وہاں صوبائی اسمبلی میں صرف 6 ممبران تھے۔
مردان ضلع سے تعلق رکھنے والے سابقہ ایم پی اے عبید اللہ مایار نے ہارس ٹریڈنگ کے لیے نقد رقم وصول کرنے کا اعتراف کیا تاہم انہوں نے دعوٰی کیا کہ یہ نقد قانون سازوں کو اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی موجودگی میں صوبائی اسمبلی کے اسپیکر کی سرکاری رہائش گاہ پر دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اراکین اسمبلی کو نقد رقم تقسیم کرنے کے معاملے پر وزیر اعلیٰ ہاؤس میں متعدد میٹنگز میں بھی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 'پورا پاکستان جانتا ہے سینیٹ کے انتخابات میں خرید و فروخت ہوتی ہے'
انہوں نے الزام لگایا کہ سینیٹر فدا محمد خان نے سینیٹ کے انتخابی مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ خود قانون سازوں کے اس پینل میں تھے جو پی ٹی آئی کے ایک اور نامزد اُمیدوار ایوب آفریدی کو ووٹ دینے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔
تاہم انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ہارس ٹریڈنگ سے متعلق ویڈیو کو ایڈٹ کیا گیا کیونکہ پی پی پی کے قانون ساز محمد علی شاہ باچا کا حصہ اصل ویڈیو میں شامل تھا۔
سابق قانون ساز نے کہا کہ انہوں نے 2018 میں اس سارے معاملے کا انکشاف کیا تھا۔
عبید اللہ مایار کے ان بیانات کی حمایت ایک اور سابق ایم پی اے زاہد درانی نے کی جسے ویڈیو میں عبید اللہ مایار کے ساتھ بیٹھا دیکھا جاسکتا ہے۔
زاہد درانی نے کہا کہ وہ اسپیکر کے گھر پر تھے جسے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے 'مویشی منڈی' میں تبدیل کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: سینیٹ کی نشست کے ریٹ لگنا شروع ہوگئے ہیں، اسد عمر
انہوں نے کہا کہ اسپیکر کی سرکاری رہائش گاہ پر یہ نقدی قانون سازوں میں تقسیم کی گئی اور انہوں نے ایک کروڑ روپے کی نقد پیش کش کو ٹھکرا دیا۔
انہوں نے کہا کہ '(اس وقت کے وزیر اعلیٰ) پرویز خٹک نے مجھے بتایا تھا کہ آپ اس رقم کو پارٹی کے جھنڈے لگانے اور اپنے حلقے میں دیگر سرگرمیاں کرنے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں'۔
انہوں نے دعوٰی کیا کہ اپوزیشن اور حکمران جماعتوں کے دونوں ممبران نقد وصول کرنے کے لیے اسپیکر کے گھر گئے تھے۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر جو اس وقت کے پی اسمبلی کے اسپیکر تھے، نے اس سے انکار کیا کہ ان کی نگرانی میں اسپیکر کے گھر پر یہ نقدی قانون سازوں کو تقسیم کی گئی تھی۔
ایک ٹوئٹ میں انہوں نے اصرار کیا کہ نہ تو ویڈیو میں دکھائی جانے والی جگہ اسپیکر کا گھر ہے اور نہ ہی اس معاملے سے ان کا کوئی لینا دینا ہے۔