• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

نیب اور نیپرا، آئی پی پیز پر نظر رکھیں گے، وزیر توانائی

شائع February 11, 2021
حکومت کے ہاتھ کٹے نہیں، ہم نے اپنے ہر حق کا تحفظ کیا ہے، کسی بھی مجرمانہ فعل کو کوئی تحفظ نہیں ہے، عمر ایوب خان - فائل فوٹو:اسکرین شاٹ
حکومت کے ہاتھ کٹے نہیں، ہم نے اپنے ہر حق کا تحفظ کیا ہے، کسی بھی مجرمانہ فعل کو کوئی تحفظ نہیں ہے، عمر ایوب خان - فائل فوٹو:اسکرین شاٹ

اسلام آباد: حکومت نے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب)، نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) یا سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کسی بھی غلط کام یا جرائم کے خلاف انڈپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے آزاد ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسی کے ساتھ ہی حکومت بینکوں سے قرضوں کی ادائیگی کی میعاد کو موجودہ دس سال سے 20 سال تک بڑھانے کے ساتھ سود کی شرح میں کٹوتی کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔

وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے بجلی تابش گوہر کے ہمراہ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'حکومت کے ہاتھ کٹے نہیں، ہم نے اپنے ہر حق (آئی پی پیز کے ساتھ نظرثانی شدہ معاہدے میں) کا تحفظ کیا ہے، کسی بھی مجرمانہ فعل کو کوئی تحفظ نہیں ہے'۔

مزید پڑھیں: 2030 تک توانائی کے 60 فیصد کو کلین انرجی پر منتقل کرنے کا ہدف ہے، وزیر اعظم

وزیر توانائی نے کہا کہ در حقیقت حکومت آئی پی پیز کو پاور ریگولیٹر کے گرمی کی شرح کے ٹیسٹوں کے احکامات کے خلاف عدالتوں سے حکم امتناع ختم کرنے میں راضی کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر احتساب اور ریگولیٹری ادارے کسی قسم کی بے ضابطگیاں یا غلط کارروائی میں پائے جاتے ہیں اور عدالتوں میں تنازع حل ہوسکتا ہے تو وہ کارروائی کرنے میں آزاد ہوں گے۔

عمر ایوب خان نے کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ نظرثانی شدہ معاہدوں میں اس سے قبل کی گئی 863 ارب روپے کی بچت ڈالر کی قیمت 168 روپے ہونے پر مبنی تھی جو روپے کی قدر میں بہتری کے بعد 770 ارب روپے پر رہ گئی کیونکہ اب ڈالر کی قیمت 160 روپے ہے۔

بچت میں سے 50 فیصد صلاحیت کی ادائیگی کے حساب سے اور 50 فیصد توانائی کی لاگت میں سے ہے۔

بینکوں کے ساتھ بات چیت کے بارے میں تابش گوہر نے کہا کہ بینکوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے قرض کی ادائیگی کی میعاد کو 20 سال تک بڑھا دیں اور سود کی شرح کبور کے علاوہ 4.5 فیصد سے 3 فیصد تک کریں۔

یہ بھی پڑھیں: ہوا، شمسی توانائی کے منصوبوں کی منظوری کیلئے وزیر اعظم کی مدد طلب

انہوں نے کہا کہ نیشنل بینک آف پاکستان اور حبیب بینک حکومت کے ساتھ اس موضوع پر بات چیت میں مشغول ہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت سندھ سے کہا جارہا ہے کہ تھر میں قائم بجلی گھروں پر ڈالر کی اشاریہ کو روپے کی طرف منتقل کیا جائے کیونکہ تمام مقامی آئی پی پیز کو ڈالر پر مبنی ایکویٹی اشاریہ جات کو روپے کی بنیاد پر ایکویٹی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔

عمر ایوب خان نے کہا کہ آئی پی پیز سے حاصل کیے گئے 770 ارب روپے کی بچت کے علاوہ، حکومت نے ایکویٹی ریٹرنز میں کمی کے ذریعے ایٹمی پلانٹس، واپڈا ہائیڈرو پاور اور تھرمل جنریشن کمپنیوں سمیت سرکاری شعبے کے تقریبا 8 ہزار میگاواٹ بجلی گھروں سے 20 کھرب 53 ارب روپے کی بچت بھی حاصل کی ہے۔

تابش گوہر نے کہا کہ 9 سو ارب روپے کی بچت سود پر سود سے حاصل کی گئی ہے اور آئی پی پیز سے بائنڈنگ معاہدوں کو حاصل کیا گیا ہے تاکہ وہ ہر وقت ایندھن کے ذخیروں کو بھرنے میں تقریبا 112 ارب روپے استعمال کریں۔

مزید پڑھیں: توانائی کے شعبے میں اصلاحات تین ہفتوں میں مکمل کر لیں گے، عمر ایوب

انہوں نے کہا کہ ابتدائی 60 روز میں واجبات کی عدم ادائیگی پر لیٹ پیمنٹ سرچارج پر رعایت کی وجہ سے 38 ارب روپے کی بچت حاصل کی گئی ہے جس کے لیے سود کی شرح کبور کے علاوہ 4.5 فیصد سے کم ہوکر 2.5 فیصد کردی گئی ہے حالانکہ پہلے 60 روز کے بعد سود کبور پلس 4.5 فیصد پر واپس آجائے گا۔

چار ڈسکوز

انہوں نے کہا کہ ٹرانسمیشن اور تقسیم کے نقصانات کی لاگت سالانہ تقریبا 150 ارب روپے ہے اور چونکہ 85 فیصد نقصانات پشاور، حیدرآباد، کوئٹہ اور ملتان ڈسکوز کی وجہ سے ہے لہذا وہ نجی شعبے کو براہ راست نجکاری یا حصص کی فروخت کے بجائے انتظامی معاہدوں کے تحت دیے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کے ساتھ ادائیگی کا منصوبہ آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے اور آئی ایم ایف پروگرام کو بحال کرنے کے لیے بجلی کے نرخوں میں فی یونٹ 1.95 روپے اضافہ کیا جارہا ہے۔

انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ ریگولیٹر کے ذریعے طے شدہ 3.34 روپے فی یونٹ اضافے میں سے 1.39 روپے وبائی مرض کے درمیان صارفین کو نہیں پہنچائے جائیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024