'اقوامِ متحدہ نے افغانستان سے خطرات کے پاکستانی مؤقف کی تائید کردی'
واشنگٹن: پاکستان نے کہا ہے کہ افغانستان میں مختلف دہشت گرد گروہوں کی موجودگی کو اجاگر کرتی اقوامِ متحدہ کی مانیٹرنگ رپورٹ نے اسلام آباد کے دیرینہ مؤقف کی تائید کی ہے کہ اس قسم کے گروپس نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے براہِ راست خطرہ ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ کی تجزیاتی اور نگرانی ٹیم کی 27 صفحات پر مشتمل رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان جو اب افغانستان میں ہے اس نے گزشتہ 3 ماہ کے دوران سرحد پار سے 100 سے زائد حملے کیے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے لیے رپورٹ میں پاکستان کی جانب سے پاک افغان خطے میں موجود دہشت گرد گروہوں کو اکھاڑ پھینکنے کی کوششوں کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کا معترف
امریکی کانگریس کو گزشتہ ہفتے ارسال کردہ 2 سرکاری امریکی رپورٹس میں بھی افغانستان میں ٹی ٹی پی اور پاکستان پیسِفک گروپس کی موجودگی کا ذکر کیا گیا تھا اور اعتراف کیا گیا تھا کہ اسلام آباد کی مسلسل کوششوں سے امریکا اور افغان فورسز داعش خراسان (داعش کی علاقائی شاخ) کو کمزور کرنے میں کامیاب رہیں۔
دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری نے کہا کہ ان رپورٹس نے افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان، جماعت الحرار (ایچ یو اے) اور ان سے وابستہ دیگر گروپوں کی جانب سے پاکستان اور خطے کو لاحق خطرات سے متعلق پاکستان کے دیرینہ مؤقف کی تائید ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اکثر عالمی برادری کی دشمن انٹیلیجنس ایجنسیز کی طرف سے توجہ ٹی ٹی پی اور اس سے وابستہ دیگر دہشت گرد گروپوں کی حمایت فراہم کرنے کی طرف مبذول کرائی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ اس حمایت کا ایک نتیجہ گزشتہ سال افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ساتھ جے یو اے، ایچ یو اے، اور ایل ای جے (لشکر جھنگوی) کے دیگر الگ الگ گروپوں کا انضمام تھا۔
مزید پڑھیں: پاکستان کے خلاف دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین کے استعمال کی مذمت
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے سرحد پر تعینات سیکیورٹی فورسز پر ٹی ٹی پی کی جانب سے سرحد پار حملوں کا معاملہ بھی اٹھایا تھا۔
ترجمان نے بیان میں کہا کہ پاکستان، افغانستان میں مخالف ایجنسیوں کے اسپانسرڈ پاکستان دشمن عناصر کی ملی بھگت کو بے نقاب کرنے کے لیے یو این مانیٹرنگ ٹیم کی کوششوں کو سراہتا ہے اور اسلام آباد اب توقع کرتا ہے کہ افغانستان سے پیدا ہونے والے اس خطرے کو ختم کرنے کے لیے کابل بھرپور کوششوں کا آغاز کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کی لعنت کے خلاف بین الاقوامی برادری کے ساتھ شراکت کے لیے پر عزم ہے۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ کے دہشت گردی پر نظر رکھنے والے ادارے کی جانب سے 3 فروری کو جاری کی گئی سلامتی کونسل کی 27 ویں رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ پاکستان 'دہشت گردی کے لیے مالی تعاون کرنے والے افراد کی گرفتاری کے ساتھ ساتھ مطلوب افراد اور جائیدادوں کے خلاف بھی کارروائی کر رہا ہے۔
امریکی کانگریس کے لیے دو طرفہ افغان تحقیقی گروہ کی تیار کردہ ایک دوسری رپورٹ میں کہا گیا کہ 'جنوبی ایشیا میں خصوصی دلچسپی رکھنے والے القاعدہ اور داعش خراسان کے علاوہ اس تھیٹر میں فعال کئی درجن گروپس میں تحریک طالبان اور لشکر طیبہ بھی شامل ہے، دونوں نے خطے کے بڑے خطرات کی طرح صلاحت کا مظاہرہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں ساڑھے 6 ہزار دہشت گرد اب بھی فعال ہیں، اقوامِ متحدہ
رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ یہ گروپس علاقائی امن کو بگاڑ سکتے ہیں اور 2 جوہری طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کا مؤجب بن سکتے ہیں۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ 'افغانستان علامتی اور جغرافیائی طور پر ان جہادی گروپس کے لیے ایک پر کشش مقام ہے جو امریکا، اس کے اتحاد، اس کے مفادات اور بین الاقوامی نظم و ضبط بنانے کے لیے جو کچھ اس نے کیا اس پر حملہ کرنے کے خواہش مند ہیں'۔
رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ افغانستان میں داعش خراسان، زیادہ ترمنحرف افغان طالبان کمانڈروں، ٹی ٹی پی کے سابق اراکین اور وسطی ایشیا کے انتہا پسند گروہوں کے پیروکار، جو پہلے القاعدہ سے وابستہ تھے، ان پر مشتمل ہے۔