پی ٹی آئی رہنما کے فارم ہاؤسز مسمار کرنے کے خلاف سپر ہائی وے پر احتجاج
کراچی: سندھ میں حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان شہر کے مضافات میں انسداد تجاوزات مہم سے شروع ہونے والا تنازع مزید شدت اختیار کر گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انتظامیہ نے گزشتہ روز مبینہ طور پر سندھ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر حلیم عادل شیخ اور ان کے اہلِ خانہ کی ملکیت میں موجود درجنوں فارم ہاؤسز گرا کر 17 سو ایکٹر سرکاری زمین واگزار کروالی۔
حکام کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق انسداد تجاوزات مہم کے سلسلے میں کی گئی جبکہ حلیم عادل شیخ اور ان کی جماعت نے پیپلز پارٹی حکومت کے اقدام کو سیاسی انتقام قرار دیا اور یہ معاملہ تمام متعلقہ فورمز پر اٹھانے کا عندیہ دیا۔
ملیر کے ایک ضلعی افسر نے بتایا کہ 'میمن گوٹھ میں تقریباً 200 فارم ہاؤسز کی عمارتیں گرائی گئی ہیں، ان میں فارم ہاؤسز کے علاوہ پولٹری فارمز، جانوروں کے باڑے، عارضی مکان اور عارضی تفریحی مقامات شامل ہیں۔
اس کارروائی میں بھاری مشینری اور سیکڑوں مزدوروں نے حصہ لیا۔
تاہم اس کارروائی پر ملیر کی ضلعی انتظامیہ کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور آپریشن شروع ہونے کے چند لمحوں بعد ہی مرد و خواتین سمیت علاقے کے درجنوں افراد اس مہم کے خلاف سامنے آگئے۔
تاہم ضلعی انتظامیہ پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ تھی جس نے مزاحمت کو روکا اور آپریشن جاری رہا البتہ شام کو پی ٹی آئی کارکنان کی بڑی تعداد نے سپر ہائی وے پر دھرنا دے دیا۔
ایک پارٹی ترجمان نے بتایا کہ بغیر کسی نوٹس کے درجنوں تعمیرات مسمار کرنے پر وزیراعلیٰ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) اور ملیر کی ضلعی انتظامیہ کے خلاف گڈاپ پولیس اسٹیشن میں اندراج مقدمہ کی تحریری درخواست دے دی گئی ہے۔
دوسری جانب انسداد تجاوزات آپریشن کے دوران کارِ سرکار میں مداخلت کرنے، مشینری کو نقصان پہنچانے اور لوگوں کو زخمی کرنے پر اقدام قتل کی دفعہ کے تحت حلیم عادل شیخ اور ان کے 70 ساتھیوں کے خلاف میمن گوٹھ تھانے میں مقدمہ درج کرلیا گیا۔
حلیم عادل شیخ کا ردِعمل
پی ٹی آئی رہنما نے اس آپریشن کو پیپلز پارٹی کی کرپشن کے خلاف بے خوف مہم چلانے کی وجہ سے کیا گیا ذاتی حملہ قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 2001 سے میرے اور میرے اہل خانہ کے پاس اس زمین کی ملکیت ہے جو تمام تر رسمی کارروائی کے بعد حاصل کی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں متعلقہ محکمے نے اس زمین کی 99 سالہ لیز دی تھی اور ہمارے پاس تمام دستاویزات بھی ہیں لیکن میں آپ کو بتادوں یہ دستاویزات یا قانونی ہونے کا معاملہ نہیں اس کا مقصد کسی کو اِن کی کرپشن کے خلاف جدو جہد سے روکنا ہے جو کبھی نہیں ہوگا۔
اس سلسلے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ 3 جنوری کو اومنی گروپ اور شوگر ملز مالکان کے خلاف پی ٹی آئی نے ریلی نکالی تھی جس پر انہوں نے ہمیں گرفتار کرنے کے بعد تشدد کیا یہ کام اس وقت سے شروع ہوا تھا اور یہ 3 سال تک میرے پیچھے لگے رہے۔
حلیم عادل شیخ کا مزید کہنا تھا کہ جب میں اپوزیشن لیڈر بنا تو وزیراعلیٰ سندھ پاگل ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ اسے بند کراؤ، انہوں نے 3 فروری کو چوروں کی طرح ملیر میں ہزاروں ایکڑ زمین کے خلاف کارروائی کے لیے ایک لیٹر نکالا اور گل صبح ایک ڈی ایس پی او کو بھیج کر کارروائی کروادیتے ہیں۔
پیپلز پارٹی حکومت کا مؤقف
دوسری جانب سندھ حکومت کے ترجمان مرتضیٰ وہاب نے پی ٹی آئی رہنما کے دعوے کو بے بنیاد قرار دے دیا اور انہیں منہدم شدہ املاک کی ملکیت ثابت کرنے کا کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ املاک کبھی حلیم عادل شیخ کی ملکیت نہیں تھیں، الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئیں دستاویزات میں ان کا کوئی ذکر نہیں تو سوال یہ ہے کہ اگر یہ بے نامی املاک تھیں تو یہ بھی غیر قانونی سرگرمی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی رہنما پنجاب اور اسلام آباد میں انسداد تجاوزات آپریشن کی تعریف کرتے ہیں لیکن سندھ میں اسی کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں سندھ کے وزیر بلدیات ناصر شاہ کا کہنا تھا کہ یہ آپرشن انسداد تجاوزات کے مہم کے تحت کیا گیا تھا اور یہ کسی بھی فرد کے عہدے سے ماورا ہو کر کیا جارہا ہے۔
ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اہداف کے حصول تک یہ مہم جاری رہے گی۔