بات چیت کے لیے صحیح ماحول پیدا کرنے کی ذمہ داری بھارت پر ہے، دفتر خارجہ
اسلام آباد: پاکستان اور بھارت نے تعلقات کو معمول پر لانے اور ایک دوسرے پر بامعنی مصروفیت کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے پر زور دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ میں کہا کہ 'بامعنی مذاکرات کے لیے سازگار ماحول بنانے کی ذمہ داری بھارت پر ہے'۔
اس سے قبل دہلی میں میڈیا بریفنگ میں بھارت وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے کہا تھا کہ 'ایسا ماحول پیدا کرنے کی ذمہ داری پاکستان پر ہے'۔
مزید پڑھیں: دفتر خارجہ کی بھارت کے پاکستان کو ایک ناکام حملے سے منسلک کرنے پر تنقید
دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کے لیے ساز گار ماحول کی بات ایسے وقت میں سامنے آئی جب رواں ہفتے کے اوائل میں رسالپور میں پی اے ایف اکیڈمی میں گریجویشن تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے اس کا اشارہ دیا تھا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ 'اب وقت آگیا ہے کہ امن کا ہاتھ ہر سمت بڑھائیں'۔
انہوں نے کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق جموں و کشمیر کے دیرینہ تنازع کو 'ایک پروقار اور پر امن طریقے سے' حل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ان کے یہ ریمارکس خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لیے پاکستان کی طرف سے تازہ ترین اشارے کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ترجمان دفتر خارجہ کا ایک مرتبہ پھر عالمی برادری پر بھارت کا محاسبہ کرنے کیلئے زور
مزید اہم بات یہ ہے کہ یہ بیان فوج کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے آیا تھا۔
ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چودھری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 'پاکستان ہمیشہ جموں و کشمیر تنازع کے بنیادی مسئلے سمیت تمام امور کے پرامن حل پر یقین رکھتا ہے، یہ بھارت ہے جس نے 5 اگست 2019 کو اپنی غیرقانونی، غیر انسانی اور یکطرفہ کارروائیوں سے ماحول کو خراب کردیا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر کے یکطرفہ اور غیر قانونی قبضے کو چھوڑ دے، مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی حد سے زیادہ خلاف ورزیوں کو روکے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے پر راضی ہو'۔
دریں اثنا بھارت کشمیر میں مقامی سطح پر اٹھنے والی بغاوت کی تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش میں پاکستان پر 'دہشت گردی' کا الزام عائد کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: دفتر خارجہ نے بھارتی وزیر کے دہشت گردی سے متعلق الزامات مسترد کردیے
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے تعلقات کو معمول پر لانے کے مطالبات کی فہرست دیتے ہوئے معمول کے منتر کو دہرایا کہ پاکستان اچھے ہمسایہ تعلقات کے لیے 'دہشت گردی، دشمنی اور تشدد سے پاک ماحول' کو یقینی بنائے۔
واضح رہے کہ 2008 میں ہونے والے ممبئی حملوں کے بعد جب دونوں ممالک نے 2013 میں دوبارہ بات چیت کا آغاز کیا تھا تاہم لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کی وجہ سے اس عمل کو روک دیا گیا۔
براہ راست یا بیک چینل کی کوئی مصروفیت نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت سے ہی دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے بھارت میں کسانوں کے احتجاج پر بھی تبصرہ کیا اور کہا کہ دنیا آہستہ آہستہ اس بات کا احساس کر رہی ہے جو پاکستان طویل عرصے سے کہہ رہا ہے کہ آر ایس ایس-بی جے پی کے اتحاد کے تحت بھارت میں اب جمہوریت نہیں رہی بلکہ ایک انتہا پسند ہندوتوا حکومت ہے۔