کورونا کے باعث پاکستانی سینما کا مستقبل کیا ہے؟
عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں سنیما اور فلموں کی ریلیز متاثر ہوئی ہیں، بین الاقوامی فلموں نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے جبکہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی پروڈیوسرز اور اسٹوڈیوز کے لیے سب معمول جیسا رہے گا۔
ڈان آئیکون میں شائع مضمون کے مطابق ہولی وڈ میں حال ہی میں کچھ فلموں کی ریلیز تاخیر کا شکار ہوئی ہے۔
عالمی وبا کی وجہ سے سینما بہت متاثر ہوئے ہیں جبکہ اسٹریمنگ سروسز نے ہولی وڈ پر اثرات مرتب کیے ہیں۔
مزید پڑھیں: کورونا میں بھی فلم ’گھبرانا نہیں ہے‘ کی شوٹنگ جاری
دنیا بھر میں کوئی بھی سینما چین یہی کہے گی کہ لوگ فلمیں دیکھنے جانے کے لیے پیسے خرچ نہیں کریں گے اگر وہ ہفتوں بعد اپنے ٹی وی سیٹس اور موبائلز پر اسے دیکھ سکتے ہو۔
یہ وہ حقیقت ہے جس کا سامنا پاکستان کو بھی ہوگا کہ جب وارنر بروس بھی اپنے فلمیں ایچ بی او میکس پر ریلیز کرنے کو تیار ہے۔
اس وقت سینما کی بقا کا دباؤ بہت زیادہ ہے کیونکہ شمالی امریکا کی سینما چین ریگل بھی یونیورسل کے ساتھ کچھ ایسے معاہدے پر بات چیت کررہی ہے۔
سائن مارک اور سائن پلیکس بھی کچھ ایسے ہی طریقہ کار اختیار کررہے ہیں، فلموں کی ریلیز التوا کا شکار ہونے کی وجہ سے ہولی وڈ میں ان کی پروڈکشن کی خبریں کم آرہی ہیں، اکثر خبریں او ٹی ٹی (اور دی ٹاپ) مارکیٹ، اسٹوڈیو ایگزیکٹو، اسکرین پلیز سے متعلق معاہدوں سے متعلق ہوتی ہیں۔
دوسری جانب پاکستان میں آزاد پروڈیوسرز لاپروائی سے فلمیں ختم کررہے ہیں جبکہ بڑے گروپز جیسا کہ جے بی فلمز، ایوریڈی، ڈسٹری بیوشن کلب اور اے آر وائی فلمز مستقبل کے لیے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سال 2020ء پاکستانی فلمی صنعت کے لیے کیسا رہا؟
ایک وجہ سے یہ بہترین حکمت عملی ہے کیونکہ پاکستان سینما کی او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر ابھی کوئی خاص جگہ نہیں ہے، درحقیقت نیٹ فلیکس، پاکستانی مواد حاصل کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
لیکن جب ہولی وڈ فلمیں، او ٹی ٹی پلیٹ فارمز ایک ہی روز پر ایک ہی دن ریلیز ہوں گی تو ناظرین کے لیے سینماؤں میں مہنگی ٹکٹوں پر خرچ کا چارم کم ہوجائے گا۔
دوسری جانب بولی وڈ آئندہ چند سالوں تک پاکستان سے دور رہے گا، اور سنیما کا واحد متبادل ملک میں بڑی اسکرین پر بننے والا مواد ہوگا۔
ایوریڈی پکچرز کے ستیش آنند نے طویل تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ مقامی فلموں نے ہمیشہ بین الاقوامی ریلیز کو پیچھے چھوڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مولا جٹ سے لے کر پنجاب نہیں جاؤں گی سے چھلاوا تک یہ پاکستانی فلمیں ہفتوں تک سینما میں چلتی تھیں جبکہ ہولی وڈ فلموں کی تھیٹر لائف 3 ہفتے ہے۔
ستیش آنند نے کہا کہ 'تاریخی طور پر پہلے ہفتے میں ہولی وڈ فلمیں اچھا بزنس کرتی ہیں، 2 ہفتوں تک اس میں کمی آتی ہیں جبکہ تیسرے ہفتے تک وہ سینما سے ہٹنے کو تیار ہوتی ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت بڑی فلموں میں قائداعظم زندہ باد، چکر، پردے میں رہنے دو، یارا وے اور پیچھے تو دیکھو سمیت دیگر ریلیز ہونے کو تیار ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستانی فلم 'آزاد' ٹی وی پر ریلیز ہوگی
ستیش آنند نے کہا کہ آئندہ چند مہینوں میں اسٹوڈیو میں کئی نئی پروجیکٹس کی فلمبندی کی جائے گی۔
دوسری جانب جمیل بیگ نے ایک میسیج میں بتایا کہ میں نے ذاتی طور پر قلیل المدتی فائدے کے لیے اس فیلڈ میں کبھی کام نہیں کیا، ہمارے پروڈکشن ہاؤس نے کبھی بھی مستحکم اوقات میں پروڈیوس نہیں کیا۔
جمیل بیگ نے حال ہی میں نیو پلیکس سینما کی چینز چلانے کے بعد فلم پروڈکشن کا رخ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری فلم گھبرانا نہیں ہے کی پروڈکشن کا آغاز غیر متوقع حالات میں ہوئی، انہوں نے بتایا کہ رواں برس ایک کے بعد ایک فلموں کی منصوبہ بندی کی ہے گزشتہ ہفتے اس سال کی تیسری فلم کا اعلان کیا تھا۔
ان کی رومانوی تھرلز فلم 'سوری، ڈارلنگ' رواں برس کی تیسری سہ ماہی میں ریلیز ہونے کے لیے تیار ہے۔
جمیل بیگ نے کہا کہ میں خود کو مواد کے لحاظ سے محدود نہیں کرنا چاہتا، ہماری آڈینس کامیڈی، رومانوی تھرلز، تاریخی ادوار کے ڈراموں، ایکشن موویز اور نوجوانوں کے لیے اینیمیٹڈ مواد کی حقدار ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں سینما کو بہت طاقتور ٹول کے طور پر دیکھتا ہوں، ہم جو دیکھتے ہیں، اس سے سیکھتے ہیں۔
فلم انڈسٹری کے لیے تبدیل شدہ ماحول
اے آر وائی فلمز کے سربراہ عرفان ملک نے کہا کہ ہم رومانوی کامیڈی اور کامیڈیز کرتے کے دوران رکنا نہیں چاہتے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ ایسی اسکرپٹس تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو روایتی سے مختلف ہوں، کیونکہ ان کے پاس اب محدود رقم ہے کہ پیسے ان پروجیکٹس میں پھنسے ہوئے ہیں جو ابھی مکمل ہونے ہیں یا ریلیز ہونے ہیں۔
عرفان ملک نے کہا کہ ہم اس وقت پھنس گئے ہیں، ہم نے ابھی ایک فلم ٹِچ بٹن مکمل کی ہے اور لندن نہیں جاؤں گا باہر نہ جانے کی وجہ سے مکمل نہیں ہوپائی۔
انہوں نے کہا کہ ہم رواں برس بہار تک سیٹ پر ایک اور فلم کی شوٹنگ کرسکتے ہیں تاکہ جب سینما دوبارہ کھلیں تو کافی مواد موجود ہوں جو اگست کے بعد، یعنی عیدالاضحیٰ کے بعد کھل جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے فلم انڈسٹری کی بحالی کے اقدامات کی منظوری دے دی
عرفان ملک کا کہنا تھا کہ 2022 کے لیے کوئی فلم نہ ہونا اے آر وائی کو ایسی صورتحال کا شکار کردے جہاں ہم نہیں ہونا چاہتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اے آر وائے فلمز رواں برس جون یا جولائی تک 2 سے 3 فلمیں بنانے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ ان کی ساکھ برقرار رہے۔
اسٹوڈیو نے اب تک جو بھی فلمیں پروڈیوس یا ڈسٹری بیوٹ کی ہیں ان کا اسٹرائیک ریٹ سب سے زیادہ رہا ہے۔
انہوں نے بجٹ کم ہوجائے گا اور ہمیں اس حوالے سے بجٹ میں کمی لانی ہوگی، عرفان ملک نے کہا کہ اگر ماحول ٹھیک ہو اور سینما 100 فیصد افراد کے ساتھ کام کرے تو یہ اچھے پروڈیوسر کے لیے کافی ہوتا ہے کہ انہیں لگایا جانے والا پیسہ واپس مل جاتا ہے۔
ٹیلیفون پر بات کے دوران ڈسٹری بیوشن کلب کے امجد رشید نے پروڈکشن کا ایک اور پہلو پیش کیا اور تبدیل ہوتے ماحول میں فلموں کے کاروباری تخمینے بتائے۔
انہوں نے کہا کہ کورونا کے دوران بننے والی فلموں کا کاروباری نقطہ نظر مختلف تھا، ان میں خطرہ تھا، انہیں ماضی کی توقعات کے مطابق بجٹس کے تحت بنایا گیا تھا۔
امجد رشید نے ان میں سے کچھ جزوی یا مکمل طور پر کورونا وائرس کی وبا سے قبل انڈسٹری کے بند ہونے سے پہلے پروڈیوس کی گئی تھیں، جب سینما کھلیں گے تو وہ کاروباری لحاظ سے قابل عمل نہںں ہوں گی۔
مزید پڑھیں: فلم ’قائد اعظم زندہ باد‘ کورونا کے بعد سب سے پہلے ریلیز ہوگی؟
انہوں نے حال ہی میں فلم پالیسی سے متعلق حکومت کے اعلان کا جائزہ لینے کے لیے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا، لیکن انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چند ماہ قبل معاون خصوصی عاصم باجوہ کے مستعفی ہونے کے بعد سے پالیسی تعطل کا شکار ہے۔
امجد رشید نے حکومت پر پروڈیوسرز، ڈسٹری بیوٹرز اور سینما مالکان کو مراعات دینے کے لیے دباؤ ڈالا ہے جو خطرات کا شکار ہیں۔
عرفان ملک کا کہنا ہے کہ امید پر دنیا قائم ہے، اور سنیما کو زندہ رکھنے کے لئے کوششیں کرنے، مواد کے لیے دور اندیشی کے باوجود ، پچھلے 20 سالوں کے دوران فلمی پروڈکشن جہاد رہا ہے اور آئندہ چند سالوں میں یہ اب بھی رہے گا۔