ہر مخالف کو غدار اور حکومتی حامی کو محبِ وطن بتایا جارہا ہے، جسٹس فائز عیسیٰ
سپریم کورٹ کے جج، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت میں ریمارکس دیے ہیں کہ یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ملک میں میڈیا آزاد نہیں ہے، ملک کو منظم طریقے سے تباہ کیا جارہا ہے، ہر مخالف کو غدار اور حکومتی حامی کو محبِ وطن بتایا جارہا ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس مقبول باقر پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سماعت کے دوران وکیل رائے احمد نواز کھرل نے کہا کہ گلگت بلتستان کے 20 لاکھ سے زائد افراد کو بھی بلدیاتی انتخابات سے محروم رکھا جارہا ہے، وہاں کے عوام کو 12 سال سے اختیارات سے محروم رکھا جارہا ہے۔
وکیل نے کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگ بھی مقدمے میں فریق بننا چاہتے ہیں، جس پر جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ اگر آپ درخواست دینا چاہتے ہیں تو دیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگرچہ وفاقی حکومت بلدیاتی انتخابات کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر ڈال رہی ہے پھر بھی اٹارنی جنرل سے کچھ باتیں پوچھنا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس میں ’نقائص‘ تھے، سپریم کورٹ
انہوں نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے جوابات میں مختلف صوبوں نے مختلف وجوہات بتائی ہیں، حد بندیوں، مردم شماری، کورونا اور عدالتی احکامات کا کہا گیا ہے۔
جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ پنجاب نے مقامی حکومت کے خاتمے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمے کا حوالہ دیا ہے، ساتھ ہی جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ کراچی میں مردم شماری میں تعداد کم ظاہر کرنے کا معاملہ بھی بہت اہم ہے۔
اس دوران جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ عدالت جاننا چاہتی ہے کہ ان وجوہات کی قانونی حیثیت کیا ہے۔
عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان نے کہا کہ مردم شماری 2017 میں ہوئی لیکن ابھی تک حتمی نوٹیفکیشن جاری نہ ہوسکا، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا 2017 کے بعد سب ہوگئے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مردم شماری پر سندھ اور دیگر کے اعتراضات ہیں، مردم شماری پر اعتراضات پر وفاقی حکومت نے کمیٹی بنادی ہے، سندھ میں 5 فیصد بلاکس پر دوبارہ مردم شماری کرائی جائے گی، ایم کیو ایم کا بھی مردم شماری کے نتائج پر اعتراض تھا۔
عدالت میں ایم کیو ایم کا نام لینے پر جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کا نام نہ لیں، یہ آئینی معاملہ ہے، ساتھ ہی انہوں نے پوچھا کہ کیا سندھ کا اعتراض، آبادی کم ہونے کا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ 2017 سے 2021 تک مردم شماری پر فیصلہ نہ ہوسکا، کیا پاکستان کو اس طرح سے چلایا جارہا ہے، یہ تو روزانہ کے معاملات ہیں۔
ساتھ ہی جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آرڈیننس تو 2 سے 6 روز میں آجاتا ہے، مردم شماری پر فیصلہ نہ ہوسکا، یہ ترجیحات کا معاملہ نہیں بلکہ جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔
اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا چیئرمین کون ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا چیئرمین وزیراعظم ہوتا ہے، اس پر جسٹس عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا وزیراعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا۔
عدالتی استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم نے اجلاس بلایا تھا لیکن کسی وجہ سے ہو نہ سکا۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا موبائل ہیک کر لیا گیا
سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات آئینی تقاضہ ہیں، بلدیاتی انتخابات کی بات ہو تو صوبے اپنے مسائل گنوانا شروع کردیتے ہیں، پنجاب حکومت نے بلدیاتی ادارے تحلیل کرکے جمہوریت کا قتل کردیا، پنجاب حکومت کی بلدیاتی ادارے تحلیل کرنے کی کوئی وجہ تو ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ مارشل لا کے دور میں تو ایسا ہوتا تھا لیکن جمہوریت میں ایسا کبھی نہیں سنا، کیا پنجاب میں لوکل گورنمنٹ ختم کرنے کا موڈ بن گیا تھا؟ اس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے جواب دیا کہ پنجاب لوکل گورنمنٹ کا نیا قانون بنا دیا گیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے مکالمہ کیا کہ ہمارے ساتھ کھیل مت کھیلیں، الیکشن کمیشن کہہ چکا ہے پنجاب کا بلدیاتی اداروں کو تحلیل کرنا غیر آئینی ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کی رائے ہے۔
اس پر جسٹس عیسیٰ نے ان سے سوال کیا کہ آپ کی رائے میں کیا یہ اقدام آئینی تھا یا غیر آئینی؟ جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل عدالت کو کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب قاسم چوہان نے کہا کہ میرے لیے سوال کا جواب دینا مشکل ہے، جس پر جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ آپ عوام اور خدا سے ڈریں، ہم لکھیں گے کہ آپ اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے، چلیں ہم اٹارنی جنرل سے یہ سوال پوچھ لیتے ہیں۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیونکہ یہ سوال ایک مفروضے پر مبنی ہے، میں عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہوں، میں آئین کے آرٹیکل 58 ٹو بی کا شدید مخالف تھا، میری نظر میں عوام کی رائے کا، احترام ہونا چاہیے۔
جس پر جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 58 ٹو بی کے تحت صدر مملکت اور گورنرز کو لا محدود اختیارات سونپے گئے تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ڈیفنس میں رہنے والوں کے مسائل نہیں، کچی آبادی والوں کے مسائل ہوتے ہیں، اسی دوران جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ہم نے خود کو نہ سدھارا تو وقت نکل جائے گا، لوگ بد دعائیں دے رہے ہیں۔
طویل سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا پنجاب کا حال مشرقی پاکستان والا کرنا ہے، پنجاب کے عوام کو حقوق سے محروم کر دیا، الیکشن کمیشن بلدیاتی انتخابات کے اخراجات سے ڈراتا ہے، الیکشن کمیشن کہتا ہے الیکشن پر 18 ارب خرچ آئے گا، یہ تو 36 اراکان اسمبلی کو دیے جانے والے ترقیاتی فنڈز کے برابر ہے، یہ عوام کا پیسہ ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مردم شماری کا مسئلہ ہے تو دوبارہ کروالیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نئی مردم شماری پر فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل میں ہوگا۔
مزید پڑھیں: لگتا ہے الیکشن کمیشن آئین سے نہیں کہیں اور سے ہدایات لے رہا ہے، جسٹس عیسیٰ
عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ سوال بھی کیا کہ کیا پاکستان میں میڈیا آزاد ہے؟
انہوں نے کہا کہ ابهی عدالت میں کھڑے صحافیوں سے ریفرنڈم کروا لیتے ہیں، میڈیا کے لوگ ہاتھ کھڑے کریں کیا میڈیا آزاد ہے؟
جسٹس عیسیٰ کی جانب پوچھے گئے سوال کے ’کیا ملک میں میڈیا آزاد ہے پر کسی صحافی نے ہاتھ کھڑا نہیں کیا‘۔
جس کے بعد انہوں نے کہا کہ اب وہ صحافی ہاتھ کهڑا کریں جو سمجهتے ہیں کہ میڈیا آزاد نہیں ہے؟ اس پر تمام صحافیوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔
اس پر جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ملک میں میڈیا آزاد نہیں، ملک میں کیسے میڈیا کو کنٹرول کیا جا رہا ہے، ملک میں کیسے اصل صحافیوں کو باہر پھینکا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کو منظم طریقے سے تباہ کیا جا رہا ہے، جب میڈیا تباہ ہوتا ہے تو ملک تباہ ہوتا ہے، صبح لگائے گئے پودے کو کیا شام کو اکھاڑ کر دیکھا جاتا ہے کہ جڑ کتنی مضبوط ہوئی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہر مخالف غدار اور حکومتی حمایت کرنے والا محبِ وطن بتایا جارہا ہے۔
ساتھ ہی جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ ججز کو ایسی گفتگو سے احتراز کرنا چاہیے لیکن کیا کریں ملک میں آئیڈیل صورتحال نہیں، کب تک خاموش رہیں گے۔
جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ بلدیاتی حکومت کو ختم کر کے پنجاب حکومت نے آئین کی واضح خلاف ورزی کی، ایسے تو اپنی مرضی کی حکومت آنے تک آپ حکومتوں کو ختم کرتے رہیں گے۔
جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ ملک جمہوریت کے لیے بنایا تھا، جمہوریت کھوئی تو آدھا ملک بھی گیا۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا والے پٹ رہے ہیں، ہمیں نہیں پتا کس نے کس کو اٹھا لیا، نہیں معلوم تو حکومت گھر جائے۔
سماعت کے دوران جسٹس عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا پاکستان میں میڈیا آزاد ہے؟ ہاں، ناں یا معلوم نہیں میں سے ایک آپشن کا استعمال کریں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیا چوتھا آپشن بھی مل سکتا ہے، جس پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا۔
بعد ازاں جسٹس عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ریفرنڈم میں نتائج سو فیصد آئے ہیں، آپ لوگ میڈیا کا گلا کیوں گھونٹ رہے ہیں، حکومت کو اپنی تعریف سننے کا اتنا شوق کیوں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بلدیاتی انتخابات کروانے کیلئے الیکشن کمیشن قانونی مشکلات کا شکار
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے، چیزیں بہتری کی طرف جا رہی ہیں، جس پر جسٹس عیسیٰ نے پوچھا کہ جنگ کیا جاری ہے، ’اٹارنی جنرل صاحب؟‘ ایک شخص بندوق کی نوک پر شہری کو لوٹ لیتا ہے آپ اس کو، حالت جنگ کہہ دیتے ہیں، آئین و قانون پر عمل درآمد یقینی بنائیں، گناہ گاروں کو جیل میں ڈالیں۔
عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہر چیز بلیک اینڈ وائٹ نہیں ہوتی، میں مانتا ہوں اب بھی کچھ گرے ایریاز موجود ہیں، اس پر جسٹس عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ آپ یہاں رک جائیں، میرے ہاتھ میں آئین کی کتاب ہے اور یہ کتاب بلیک اینڈ وائٹ ہے، آئین میں کچھ گرے نہیں ہوتا، عین ممکن ہے کہ آئین کی چند شقیں مجھے ذاتی طور پر نا پسند ہوں، مگر آئین ہم سب پر مقدم ہے، چاہے ہمیں پسند ہو یا نا پسند، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آپ سے متفق ہوں۔
بعد ازاں اٹارنی جنرل نے مردم شماری کے معاملے پر کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں مردم شماری سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جائے گا، جس کے بعد نوٹیفکیشن جاری کردیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کہ ہفتوں کی نہیں دنوں کی بات ہے تاہم تین ہفتوں کی مہلت دی جائے۔
جس پر سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت یکم مارچ تک ملتوی کردی۔