رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں مالی خسارہ بڑھ کر 11 کھرب 38 ارب روپے ہوگیا
اسلام آباد: رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں ریکارڈ 11 کھرب 38 ارب روپے کے مالی خسارے کے باعث حکومت نے 10 ویں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کا افتتاحی اجلاس 18 فروری کو طلب کرلیا ہے تاکہ مرکز اور صوبوں کی مجموعی مالی صورتحال کا جائزہ لیا جاسکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ نے بتایا کہ 21-2020 کے پہلے 6 ماہ (جولائی سے دسمبر) میں مالی خسارہ جی ڈی پی کے 2.5 فیصد پر کھڑا تھا۔
پی ٹی آئی حکومت کے پہلے سال 19-2018 کے اسی عرصے میں یہ مالی خسارہ 2.7 فیصد دیکھا گیا تھا تاہم مطلق تعداد میں خسارہ 10 کھرب 30 ارب روپے تھا۔
اسی طرح مالی سال 20-2019 کے پہلے 6 ماہ میں مالی خسارہ جی ڈی پی کا 2.3 فیصد یا 995 ارب روپے تھا۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری مالی اعداد و شمار میں مالی سال 21 کی پہلی ششماہی میں مجموعی ریونیو 33 کھرب 50 ارب روپے یا ڈی جی پی کا 7.4 فیصد رہا جبکہ ٹیکس ریونیو 24 کھرب 55 ارب روپے یا جی ڈی پی کا 5.4 فیصد پر موجود رہا، اس کے علاوہ نان ٹیکس ریونیو 895 ارب روپے یا جی ڈی پی کا 2 فیصد دیکھا گیا۔
دوسری جانب مالی سال 2021 کی پہلی ششماہی میں مجموعی خرچ 44 کھرب 89 ارب روپے یا جی ڈی پی کا 9.9 فیصد رہا، اس میں 40 کھرب 29 ارب روپے یا جی ڈی پی کا 8.8 فیصد کا موجودہ خرچ شامل ہے۔
موجودہ مجموعی خرچ اور موجودہ خرچ دونوں گزشتہ سال کے مقابلے زیادہ رہے حالانکہ دفاعی خرچ گزشتہ سال کے مقابلہ کم رہا۔
رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں مارک اپ (سود) کی ادائیگیاں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے 12 کھرب 80 ارب روپے کے مقابلے میں 14 کھرب 75 ارب روپے رہیں، دفاعی خرچ رواں سال 486 ارب روپے رہا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 530 ارب روپے تھا، مزید یہ کہ ترقیاتی اخراجات بھی رواں سال کے پہلے 6 ماہ میں کم رہے اور یہ 414 ارب روپے تک پہنچے جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 464 ارب روپے تھے۔
اس کے علاوہ پرائمری بیلنس (قرض سروسز کے سوا خسارہ) 0.7 فیصد کے سرپلس یا 337 ارب روپے رہا جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 286 ارب یا جی ڈی پی کا 0.6 فیصد تھا۔
اس کے پس منظر میں ہی حکومت نے این ایف سی اجلاس کے لیے 2 نکاتی ایجنڈا طے کیا ہے، تمام اسٹیٹ ہولڈرز سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی حالیہ مالی پوزیشنز اور مستقبل کی پیش گوئیوں کے ساتھ آئیں۔
پہلا اجلاس مختلف شعبوں پر مختلف ذیلی گروہوں کی تشکیل سمیت مرکز اور صوبوں اور صوبوں کے درمیان مالی انتظامات کے مسقبل کو شکل دینے کے ساتھ ساتھ این ایف سی تبادلہ خیال کے لیے ایک اسٹیج قائم کرنا ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: مالی سال20-2019 میں خسارہ جی ڈی پی کے مقابلے میں 8.1 فیصد رہا
دوبارہ تشکیل پانے والی این ایف سی کے تحت وزیر خزانہ حفیظ شیخ اس کمیشن کے چیئرمین ہیں، حفیظ شیخ کے وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ کے قلمدان کے باعث اٹھنے والے قانونی چیلنجز کی وجہ سے این ایف سی گزشتہ 2 برس سے مشکل میں تھا تاہم اب انہیں صوبائی نجی رکنیت کے تنازعات کے علاوہ خزانے کا وزیر بنادیا گیا ہے۔
اس دوبارہ تشکیل پانے والی 9 رکنی این ایف سی کی سربراہی وفاقی وزیر برائے خزانہ کر رہے ہیں اور اس میں 4 صوبائی وزرائے خزانہ کے علاوہ دیگر ممبران میں پنجاب سے طارق باجوہ، سندھ سے ڈاکٹر اسد سعید، خیبرپختونخوا سے مشرف رسول اور بلوچستان سے ڈاکٹر قیصر بنگالی شامل ہیں۔
این ایف سی کے ٹی او آرز تجویز کرتے ہیں مرکز چاہے گا کہ صوبے قومی ترقیاتی منصوبوں کا مالی بوجھ بانٹیں اور کچھ غیرمتعین اضافی مالی ذمہ داریاں لیں، مزید یہ کہ این ایف سی کے نوٹیفکیشن میں 3 وسیع ٹی او آرز کو شامل کیا گیا ہے۔
این ایف سی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے قرض لینے کے لیے اختیارات اور شرائط کو بھی طے کرے گا اس کے علاوہ صدر کی جانب سے بھیجا گیا کوئی دوسرا مالی معاملہ بھی یہ دیکھے گا۔