پشاور ہائیکورٹ: ایف آئی اے کو کرک میں خام تیل کی چوری کی تحقیقات کرنے کا حکم
پشاور ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو 3 ماہ میں ضلع کرک میں تیل کی فیلڈز میں پیداوار کے دوران خام تیل کی مبینہ چوری کی انکوائری کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس روح الامین اور جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل بینچ نے وفاقی سیکریٹری برائے پیٹرولیم اور معدنی وسائل میاں اسد حیاالدین کو ایف آئی اے کے ساتھ انکوائری میں تعاون کرنے کی ہدایت کی۔
یہ ہدایات مجاہد اسلام اور ضلع کرک کی تحصیل بندہ داؤد شاہ کے 49 رہائشیوں کی جانب سے دائر کردہ مشترکہ درخواست کی سماعت میں دی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: پیٹرولیم سیکٹر میں 11 کھرب روپے سے زائد کی عدم وصولیوں کا انکشاف
درخواست میں عدالت سے خام تیل کی مبینہ چوری پر تیل اور گیس دریافت کرنے والی بین الاقوامی کمپنی کا لائسنس منسوخ کرنے سمیت متعدد رعایتوں کی استدعا کی گئی تھی۔
درخواست گزاروں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ ضلع کرک، کوہاٹ اور ہنگو کے وہ لوگ جن کی املاک یا اراضی کو نقصان پہنچا اور جنہیں تیل کی دریافت کی وجہ سے ماحولیاتی اثرات یا صحت کے خطرات کا سامنا ہے انہیں صوبائی اور وفاقی حکومت سے معاوضے کی ادائیگی کا حقدار قرار دیا جائے۔
انہوں نے اس اعلان کی بھی استدعا کی تھی کہ ایف آئی اے، قانون نافذ کرنے والے ادارے، وفاقی اور صوبائی ریونیو حکام، آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی، او جی ڈی سی ایل اور وفاقی اور صوبائی انسداد بدعنوانی کے ادارے ایکسپلوریشن کمپنی کے مفادات کا تحفظ کرنے کی وجہ سے تیل اور گیس کی چوری میں ملوث ہیں۔
مزید پڑھیں: پیٹرولیم بحران رپورٹ: کمیشن کی اوگرا تحلیل کرنے کی سفارش
سماعت میں ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سجاد خان، ڈپٹی اٹارنی جنرل اصغر خان کنڈی کے ہمراہ پیش ہوئے اور کہا کہ تفتیشی ادارے کے پاس تحقیقات کے لیے تکنیکی معاونت کا فقدان تھا لیکن پیٹرولیم ڈویژن نے اس سلسلے میں تعاون نہیں کیا۔
دوسری جانب سیکریٹری پیٹرولیم حیاؤ الدین بھی عدالتی نوٹس پر پیش ہوئے اور کہا کہ ان کی وزارت نے عدالتی احکامات کے مطابق ایف آئی کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزارت ایف آئی اے کو درکار تمام تکنیکی معاونت بھی فراہم کرے گی۔
بعدازاں بینچ نے درخواست پر مزید سماعت مئی کے آخری ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے ایف آئی اے کو اس وقت تک رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی۔
یہ بھی پڑھیں: ’خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ گیس چوری ہوتی ہے‘
درخواست گزاروں کے وکیل فضل شاہ محمد کا کہنا تھا کہ ایم او ایل پاکستان آئل اینڈ گیس کمپنی نے ایکسپلوریشن لائسنس اور پیٹرولیم کے ایک رعایتی معاہدے کے بعد فروری 1999 میں پاکستان میں اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ لائسنس یافتہ علاقوں میں 8 ہزار بیرل یومیہ تیل کی پیداوار کررہی ہے لیکن ایف آئی اے خیبرپختونخوا کی ایک انکوائری میں کمپنی کے افعال میں بدعنوانیاں اور 30 ہزار بیرل یومیہ پیداوار کا انکشاف ہوا تھا۔