ایپل اور ہونڈائی کے اشتراک سے الیکٹرک گاڑی کی تیاری کی افواہوں میں تیزی
ایپل اور ہونڈائی کی جانب سے مل کر ایک الیکٹرک گاڑی کی تیاری کی خبریں گزشتہ چند ماہ سے سامنے آرہی ہیں۔
اب ایپل انسائیڈر کی ایک رپورٹ میں تجزیہ کار منگ چی کیو نے بتایا ہے کہ ایپل کی پہلی گاڑی ہونڈائی کے ای۔ جی ایم پی پلیٹ فارم پر مبنی ہوگی، جو بیٹری پاور الیکٹرک گاڑیوں کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔
ہونڈائی نے اس پلیٹ کے قیام کا اعلان 2020 کے آخر میں کیا تھا۔
ہونڈائی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس پلیٹ فارم کے تحت تیار ہونے والی گاڑیاں فل چارج پر 500 کلومیٹر تک سفر کرسکیں گی جبکہ بیٹری فاسٹ چارجنگ کے ذریعے محض 18 منٹ میں 80 فیصد تک چارج ہوجائے گی۔
تاہم گاڑیوں کی کارکردگی کا انحصار ان کے ڈیزائن پر ہوگا۔
اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ایپل کی پہلی گاڑی ہونڈائی کے اشتراک سے تیار ہوگی مگر دیگر گاڑیوں کی تیاری کے لیے جنرل موٹرز اور دیگر کمپنیوں سے بھی شراکت داری کا امکان ہے۔
ایپل کی جانب سے گاڑیاں تیار کرنے والے شراکت داروں کے سپلائی چین کو بھی تشکیل دیا جائے گا۔
ہونڈائی ایپل کی پہلی گاڑی کے پرزہ جات کے ڈیزائن اور پروڈکشن کی قیادت کرے گی جبکہ اس کی ذیلی کمپنی کیا (Kia) امریکا میں گاڑیوں کی پروڈکشن کی ذمہ دار ہوگی۔
جنوری 2021 میں ہونڈائی نے ان رپورٹس کی تصدیق کی تھی کہ وہ ایک الیکٹرک گاڑی کی تیاری کے لیے ایپل سے بات چیت کررہی ہے، مگر بعد میں اس بیان کو واپس لے لیا گیا تھا۔
بعد ازاں ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ہمیں متعدد کمپنیوں سے خودکار ڈرائیونگ کی صلاحیت رکھنے والی الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری میں تعاون کی درخواستیں موصول ہورہی ہیں، تاہم اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا کیونکہ بات چیت ابتدائی مرحلے میں ہے۔
حال ہی میں خبررساں ادارے رائٹرز نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ ہونڈائی کی قیادت ایپل کے ساتھ شراکت داری کے حوالے سے منقسم ہے۔
رپورٹ میں ایک بے نام عہدیدار کے حوالے سے بتایا گیا کہ ہم سوچ رہے ہیں کہ کیسے ہوگا اور کیا یہ ہمارے لیے بہتر ہوگا بھی یا نہیں، ہم ایسی کمپنی نہیں جو دیگر کے لیے گاڑیاں تیار کرتی ہو، ایپل کے ساتھ کام کرنے کا مطلب یہ نہیں اس سے ہمیشہ بہترین نتائج حاصل ہوں۔
منگ چی کیو کا ماننا ہے کہ ایپل کی گاڑی پر بہت تیزرفتاری سے بھی کام ہو تو بھی اس کی مارکیٹ میں دستیابی 2025 سے پہلے ممکن نہیں۔
خیال رہے کہ ایپل کے خودکار ڈرائیونگ کی تیاری کے خفیہ منصوبے یا پراجیکٹ ٹائٹن کے حوالے سے کئی برسوں سے رپورٹس سامنے آرہی ہیں۔
مگر اب جاکر لگتا ہے کہ ایپل کا یہ منصوبہ ٹھوس شکل اختیار کرنے والا ہے۔