میانمار: فوجی بغاوت کے بعد اراکین پارلیمنٹ نظر بند
میانمار کی پارلیمنٹ کے سیکڑوں ممبران فوجی بغاوت کے ایک روز بعد ملک کے دارالحکومت میں اپنی سرکاری رہائش گاہ کے اندر قید کردیے گئے اور نوبل انعام یافتہ اور ڈی فیکٹو رہنما آنگ سان سوچی سمیت سینئر سیاستدانوں کو حراست میں لے لیا گیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق اسی دوران آننگ سان سوچی کی نیشنل لیگ برائے ڈیموکریسی پارٹی نے ایک بیان جاری کیا جس میں فوج سے گزشتہ نومبر کے انتخابات کے نتائج کا احترام کرنے اور ان تمام افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
پارٹی نے اپنے ایک فیس بک پیج پر ایک بیان میں کہا کہ 'کمانڈر ان چیف کا عوام کی طاقت پر قبضہ کرنا آئین کے منافی ہے اور یہ لوگوں کی خودمختاری کی بھی نفی کرتا ہے'۔
زیر حراست قانون سازوں میں سے ایک نے بتایا کہ وہ اور پارلیمنٹ کے تقریباً 400 ارکان کمپاؤنڈ کے اندر ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں اور فون کے ذریعے اپنے انتخابی حلقوں سے بات چیت بھی کرسکتے ہیں تاہم انہیں نیپیداو میں رہائشی کمپلیکس سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: میانمار: آنگ سان سوچی کا عوام پر فوجی بغاوت قبول نہ کرنے کیلئے زور
انہوں نے کہا کہ آنگ سان سوچی کو ان کے ساتھ نہیں رکھا گیا ہے۔
قانون ساز نے بتایا کہ پولیس رہائشی کمپلیکس کے اندر ہے اور فوج اس کے باہر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آنگ سان سو چی کی پارٹی اور مختلف چھوٹی جماعتوں کے ممبران پر مشتمل سیاستدان رات کو سو نہیں سکے کہ انہیں شاید لے جایا جائے تاہم وہ ٹھیک ہیں۔
قانون ساز نے اپنی حفاظت کے بارے میں تشویش پر نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا 'ہمیں بیدار رہنا تھا اور ہوشیار رہنا تھا'۔
صبح سویرے ہی ملک کے تمام اراکین پارلیمنٹ نئے پارلیمانی اجلاس کے افتتاح سے قبل دارالحکومت میں جمع ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: میانمار میں فوج اقتدار پر قابض، آنگ سان سوچی زیرحراست
فوج نے کہا کہ قبضہ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت نے نومبر کے انتخابات میں فوج کے دھوکا دہی کے دعووں پر عمل نہیں کیا تھا جس میں آنگ سان سوچی کی حکمراں جماعت نے پارلیمانی نشستوں پر اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے کورونا وائرس کے باوجود انتخابات کے ہونے کی اجازت دی تھی۔
پیر کو فوج کی ملکیت میواڈی ٹی وی پر سنائے گئے ایک اعلان میں کہا گیا کہ کمانڈر ان چیف سینئر جنرل من آنگ ہیلنگ ایک سال کے لیے ملک کے انچارج ہوں گے۔
گزشتہ رات کمانڈر ان چیف کے دفتر نے کابینہ کے نئے وزرا کے ناموں کا اعلان بھی کیا۔
11 رکنی کابینہ فوجی جرنیلز، سابق فوجی جرنیلز اور سابق جنرل تھیین سین کی سربراہی میں سابقہ حکومت کے سابق مشیروں پر مشتمل ہے۔
میانمار، حال ہی میں سخت فوجی حکمرانی اور بین الاقوامی تنہائی سے 1962 کے بعد باہر آنا شروع ہوا تھا اور اب یہ بین الاقوامی برادری کے لیے ایک امتحان بن گیا ہے جنہوں نے میانمار کو فوجی حکمرانی کے دوران تنہا چھوڑ دیا تھا اور پھر بعد ازاں آنگ سان سوچی کی حکومت کو سراہا تھا کہ یہ ملک کو بالآخر جمہوریت کی راہ پر گامزن کر رہی ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن نے نئی پابندیوں کی دھمکی دے دی ہے جس کا سامنا اس ملک کو پہلے کرنا پڑا تھا۔
ملک کے سب سے بڑے شہر ینگون میں سڑکوں پر معمول سے کم رش نظر آیا جبکہ مارکیٹیں کھلی ہوئی تھیں، سڑک کنارے دکانوں پر بھی پکوان تیار ہورہے تھے ٹیکسی اور بسیں بھی چل رہی ہیں۔
بھاری سیکیورٹی کی کوئی ظاہری علامتیں نہیں تھیں تاہم پیر کے واقعات کے بعد پیدا ہونے والی بے چینی اب بھی لوگوں میں دیکھی جاری ہے۔
مزید پڑھیں: میانمار: فوج کے مظالم کی تحقیقات کرنے والے صحافی رہا
لوگ اپنے گھروں اور کاروبار سے آنگ سان سوچی کی پارٹی کے کسی وقت عام ہونے والے سرخ پرچموں کو ہٹا رہے تھے۔
انگریزی زبان کے میانمار ٹائمز نے ہنگامی صورتحال پر سرخی لگائی جبکہ دیگر سرکاری اخبارات مں قومی دفاع اور سلامتی کونسل کے اجلاس کو صفحہ اول کی تصاویر پر دکھایا جس میں نومنتخب قائم مقام صدر مینٹ سوی سمیت دیگر فوجی عہدیداروں نے شرکت کی تھی۔
فوج نے کہا کہ اس کے اقدامات آئین کے اس مسودے کے حوالے سے قانونی طور پر جائز ہیں جو انہیں قومی ہنگامی صورتحال کے دوران کنٹرول حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے حالانکہ آنگ سان سو چی کی پارٹی کے ترجمان اور بہت سے بین الاقوامی مبصرین نے کہا ہے کہ یہ بغاوت کے مترادف ہے۔