• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

پاکستان میں گزشتہ سال 10 صحافی قتل، متعدد گرفتار ہوئے، سی پی این ای

شائع February 1, 2021
صحافیوں پر تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی، ایسا لگتا ہے کہ ایسے افراد استثنیٰ سے لطف اندوز ہوتے ہیں، سی پی این ای - فائل فوٹو:اے ایف پی
صحافیوں پر تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی، ایسا لگتا ہے کہ ایسے افراد استثنیٰ سے لطف اندوز ہوتے ہیں، سی پی این ای - فائل فوٹو:اے ایف پی

کراچی: گزشتہ سال اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے کم از کم 10 پاکستانی صحافیوں کو قتل اور متعدد کو دھمکی دی گئی، اغوا کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں گرفتار کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جہاں کورونا وائرس سے پاکستانی میڈیا کو ایک بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے جس سے کم از کم 9 صحافی ہلاک ہوچکے ہیں وہیں ایک سال کے دوران صحافیوں کو آزادی صحافت اور آزادی اظہار رائے کے سلسلے میں انتہائی دباؤ کا سامنا بھی رہا ہے۔

پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) میڈیا فریڈم رپورٹ 2020 کے مطابق میڈیا کو خاموش کرنے کی کوششیں سال بھر جاری رہیں۔

مزید پڑھیں: پشاور: نجی ٹی وی کے صحافی کے گھر پر دھماکہ

اس میں کہا گیا کہ آزادی صحافت سے متعلق تحقیقاتی رپورٹس کے مطابق آزادی اظہار رائے کو کم کرنے کی سازشوں کے درمیان گزشتہ جنوری سے دسمبر تک بڑھتی پابندیوں کے باوجود صحافی اپنے فرائض پورے کرتے رہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سینئر عہدیداروں اور حکومت کے نمائندوں کی طرف سے زبانی اور جسمانی تشدد اور صحافیوں کے خلاف جعلی مقدمات کے اندراج اور ان کی گرفتاری، بشمول جنگ کے ایڈیٹر ان چیف میر شکیل الرحمٰن، سے میڈیا اور صحافیوں کی آزادی کے حوالے سے ایک سنگین منظر سامنے آیا ہے'۔

صحافیوں پر تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ایسے افراد استثنیٰ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

سی پی این ای کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 'یہ انتہائی تشویش کی بات ہے کہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے اور انصاف فراہم کرنے میں ملک کا قانونی نظام بیکار ہو گیا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: صحافی کون؟

رپورٹ میں نوٹ کیا گیا کہ میڈیا کو 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کا سہرا دیا گیا تھا تاہم بعدازاں پی ٹی آئی کی زیر قیادت حکومت کے عہدیداروں نے آزاد میڈیا کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں جب سرکاری عہدیداروں نے آزادی اظہار رائے پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی ہو بلکہ سینئر عہدیداروں نے مقامی اور بین الاقوامی فورمز میں آزادی صحافت کے خلاف بات کی ہے، وزیر اعظم عمران خان نے ستمبر 2020 میں الجزیرہ کو بتایا تھا کہ ان کی حکومت اور وزرا میڈیا سے غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں'۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 2020 میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو اپنے فرائض انجام دینے کی وجہ سے نشانہ بنایا، غیر اعلانیہ اور پوشیدہ سنسرشپ اس وقت مزید شدت اختیار کر گئی جب صحافیوں کو آن لائن یا سوشل میڈیا ویب سائٹ پر اپنی رائے کے اظہار کے لیے ہراساں کیا گیا اور دھمکی دی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سرکاری عہدیداروں نے کراچی اور لاہور میں سینئر صحافیوں محمد حنیف اور سہیل وڑائچ کی لکھی ہوئی کتابیں ضبط کیں، 27 جولائی کو رینجرز اہلکاروں نے کراچی پریس کلب کے تقدس کو پامال کیا اور چھاپہ مار کارروائی کی۔

گزشتہ سال متعدد اخباروں کو اپنی کارروائی بند کرنی پڑی، وفاقی وزارت اطلاعات نے 6 ہزار سے زائد اشاعتوں کو 'ڈمی اخبارات' قرار دیتے ہوئے ان کی رجسٹریشن معطل کردی تھی۔

مزید پڑھیں: صحافی مطیع اللہ جان لاپتا، اپوزیشن کا اسمبلی سے احتجاجاً واک آؤٹ

6 جون کو پریس رجسٹرار کے حکم پر تمام غیر رجسٹرڈ اشاعتیں، پرنٹنگ پریس اور نیوز آرگنائزیشن بند کردی گئیں۔

ایک سال کے دوران ہزاروں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی سروسز ختم کردی گئیں اور ان کی اکثریت کو تنخواہوں میں غیر معمولی کمی اور تاخیر دیکھی گئی۔

ریڈیو پاکستان کے ایک ہزار سے زائد ملازمین کی سروسز بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ختم کردی گئیں۔

تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے ہونے والے معاشی دباؤ کی وجہ سے دو میڈیا ورکرز اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، کیپیٹل ٹی وی کے کیمرا مین فیاض علی تنخواہ کی ادائیگی کے بغیر ملازمت سے برطرف ہونے کے بعد دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہوگئے جبکہ بول نیوز کے معاذ اختر نے تنخواہ کی عدم ادائیگی اور گھریلو معاملات کی وجہ سے 5 نومبر کو خودکشی کرلی تھی۔

ڈان کی انتظامیہ نے ملازمین کو استعفی دینے پر مجبور کرنے، آٹھویں ویج ایوارڈ پر عمل درآمد کرنے سے انکار کرنے اور زبردستی اپنی تنخواہوں میں کمی کرنے پر اخبار کی انتظامیہ کے خلاف سخت احتجاج ریکارڈ کرایا۔

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے متعدد مواقع پر نوٹس جاری کرنے کے ساتھ ساتھ 'غیر ضروری قانون سازی' کے ذریعے میڈیا کو دھمکانے اور ان پر قابو پانے کی کوشش کی۔

اس نے ویب ٹی وی اور اوور دی ٹاپ میڈیا سروسز کے لیے قواعد و ضوابط متعارف کروا کر سوشل میڈیا پر بھی پابندیاں عائد کرنے کی کوشش کی۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024