• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

پائلٹ لائسنس اسکینڈل: ایف آئی اے نے 6 افراد کو گرفتار کرلیا

شائع January 30, 2021
ایف آئی اے کراچی نے ایک پائلٹ اور سی اے اے کی لائسنس برانچ کے پانچ اہلکاروں کو گرفتار کیا۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی
ایف آئی اے کراچی نے ایک پائلٹ اور سی اے اے کی لائسنس برانچ کے پانچ اہلکاروں کو گرفتار کیا۔ - فائل فوٹو:اے ایف پی

راولپنڈی: فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے کمرشل پائلٹس کے 'مشکوک' لائسنسوں کی تحقیقات مکمل کرکے 40 پائلٹس، سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی سی اے) لائسنس برانچ کے 8 عہدیداروں اور ایک نجی شخص کے خلاف تین مقدمات درج کرکے 6 افراد کو مبینہ طور پر مشکوک پائلٹ لائسنس اسکینڈل میں ملوث ہونے پر گرفتار کرلیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایف آئی اے کے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی کی جانب سے گرفتار ہونے والوں میں ایک پائلٹ اور سی اے اے کی لائسنس برانچ کے پانچ اہلکار شامل ہیں۔

ایف آئی اے کی جانب سے باقی ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

مزید پڑھیں: عالمی تحفظات دور کرنے کیلئے پائلٹ لائسنس امتحانات آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ

گرفتار ہونے والے افراد میں سی اے اے لائسنسنگ برانچ میں قائم مقام ایڈیشنل ڈائریکٹر خالد محمود، سینئر جوائنٹ ڈائریکٹرز لائسنس برانچ فیصل منظور انصاری اور آصف الحق، ایڈیشنل ڈائریکٹر لائسنس برانچ محمد محمود حسین، ایچ آر لائسنسنگ برانچ کے سینئر سپرنٹنڈنٹ عبد الرئیس اور پائلٹ محمد ثقلین علی شامل ہیں۔

ایوی ایشن ڈویژن نے سی اے اے کے 5 عہدیداروں کے خلاف مقدمات ایف آئی اے کو بھیجے تھے تاکہ فلائٹ عملے کے لائسنس کے اجرا میں غلط کاموں میں ملوث اہلکاروں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا جاسکے۔

عدالت عظمیٰ نے اس وقت کے سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل کو ہدایت کی تھی کہ وہ فلائٹ عملے کے لائسنس کی جانچ کے عمل میں ضابطے کی خلاف ورزیوں/بے ضابطگیاں کے معاملے کو دیکھیں اور اس وقت کے سیکریٹری ایوی ایشن نے اس معاملے کو دیکھنے کے لیے ایک آزاد حقائق تلاش کرنے کی کمیٹی تشکیل دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پائلٹ لائسنس کا معاملہ: وزیر ہوا بازی اپنے بیان پر قائم

کمیٹی نے سی اے اے کے آئی ٹی/کمپیوٹر نیٹ ورک کے عہدیداروں کی جان بوجھ کر خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی تھی اور پائلٹ لائسنسنگ کے عمل سے متعلق کمپیوٹر پر مبنی ٹیسٹ تک غیر مجاز رسائی کی فراہمی یا سہولت فراہم کرنے میں ان کی شمولیت کی نشاندہی کی تھی۔

سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے کیے گئے چند پائلٹس کی نجی سماعت کے دوران فلائنگ اکیڈمی کے ایک سابق ملازم کی نشاندہی بڑے مجرم کے طور پر کی گئی تھی۔

خیال رہے کہ 24 جون 2020 کو قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔

جس کے بعد پاکستان نے 26 جون کو امتحان میں مبینہ طور پر جعل سازی پر پائلٹس کے لائسنسز کو 'مشکوک' قرار دیتے ہوئے انہیں گراؤنڈ کردیا تھا۔

وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں'۔

مزید پڑھیں: ’جانچ پڑتال کے بعد 50 پائلٹس کے لائسنس منسوخ کردیے گئے‘

جس کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے اپنے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا۔

علاوہ ازیں مختلف بین الاقوامی ایئرلائنز کی جانب سے بھی پاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے کے واقعات دیکھنے میں آئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024