عزیز بلوچ قتل کے مزید 2 مقدمات میں بری
کراچی: سیشن کورٹ (جنوبی) نے کالعدم پیپلزامن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ کو قتل کے 2 مقدمات میں عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عزیر بلوچ مختلف سیشنز اور انسداد دہشت گردی عدالت میں تقریباً 60 زیرالتوا مجرمانہ مقدمات میں نامزد ہے جبکہ فوجی عدالت سے ’جاسوسی‘ کی سزا کے بعد ان کی حراست منتقل ہونے سے لیکر اب تک وہ 6 مقدمات میں بری ہوچکے ہیں۔
جمعہ کو بھی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج (جنوبی) نے دونوں فریقین کے ثبوت ریکارڈ کرنے اور حتمی دلائل کے بعد محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔
مزید پڑھیں: عزیر بلوچ کو فوج نے 3 سال بعد جیل حکام کے حوالے کردیا
جج نے کہا کہ استغاثہ عزیر بلوچ اور ان کے ساتھی کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی، جس کے باعث عدم ثبوتوں کی وجہ سے انہیں ان الزامات سے بری کردیا گیا۔
عدالت کی جانب سے یہ بھی ہدایت کی گئی کہ اگر ملزمان کی کسی اور مقدمے میں حراست ضروری نہیں تو ان دونوں کو فوری طور پر رہا کردیا جائے۔
واضح رہے کہ 8 جنوری کو کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پولیس اہلکاروں پر مسلح حملے سے متعلق 2 مقدمات میں 'ثبوتوں کی عدم دستیابی' پر عزیر بلوچ سمیت 10 افراد کو بری کیا تھا۔
3 روز بعد 12 جنوری کو کراچی کی سیشن کورٹ نے کالعدم پیپلز امن کمیٹی و لیاری گینگ وار کے سربراہ عذیر جان بلوچ کو قتل کے ایک اور مقدمے میں بری کردیا تھا۔
جس کے بعد 20 جنوری کو کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر جان بلوچ اور ایک اور فرد کو انکاؤنٹر اور اقدام قتل کے مقدمے میں بری کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ ایک اور کیس میں بری
خیال رہے کہ عزیر بلوچ کو پاکستان رینجرز سندھ کی جانب سے ابتدائی طور پر 90 روز کی حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا اور پھر جنوری 2016 میں ان کی پراسرار گرفتاری کے بعد انہیں پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔
جس کے بعد اپریل 2017 میں فوج نے اعلان کیا تھا کہ 'جاسوسی' کے الزامات پر انہوں نے عزیر بلوچ کی حراست میں لے لیا۔
بعد ازاں 3 سال بعد فوج کی جانب سے عزیر بلوچ کو جیل حکام کے حوالے کردیا گیا تھا جس کے بعد محکمہ جیل نے انہیں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تھا۔