فی الوقت حکومت کا براڈشیٹ سے کوئی ورکنگ ریلیشن نہیں، شہزاد اکبر
وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ حکومت کا براڈ شیٹ سے کوئی ورکنگ ریلیشن نہیں اور نہ ہی ایسٹ ریکوری یونٹ کسی بھی نجی ایجنسی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وقفہ سوال و جواب میں وفاقی وزرا و وزیر اعظم کے معاون خصوصی و مشیر نے اراکین اسمبلی کے سوالات کے جوابات دیے۔
کراچی سے دالبندین کے لیے پی آئی اے کی پرواز کی بحالی کے حوالے سے سوال کے جواب میں غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ اس پر کام کیا جارہا ہے اور فروری تک اسے بحال کردیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کی سینیٹ انتخابات پر قومی اسمبلی میں بل پیش کرنے کے فیصلے پر تنقید
رکن قومی اسمبلی شجاع فاطمہ نے سوال کیا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کا حصہ ادارے کئی سالوں سے اپنا کام کر رہے ہیں، جب ادارے اپنا کام کر رہے ہیں تو اس کا کیا ایسا کردار ہے کہ اس پر کروڑوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں۔
اس کے جواب میں وزیر اعظم کے مشیر احتساب مرزا شہزاد اکبر نے کہا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کے ٹرمز آف ریفرنسز کابینہ ڈویژن کی جانب سے 5 ستمبر 2018 کے نوٹی فائی کیے گئے ہیں جو عوام کے لیے دستیاب ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کا کردار قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان رابطہ قائم کرنا ہے اور اس رابطے سے نتائج بہتر آتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رابطے کے مختلف طریقے ہیں، ہماری برطانیہ سے بھی ایسٹ ریکوری کا معاہدہ ہوا، اس کی سربراہی معاون خصوصی برائے احتساب کر رہے ہیں جو اس کی کوئی تنخواہ نہیں لیتے، اس کے علاوہ دیگر اداروں کے سربراہان اس میں کام کررہے ہیں جنہیں پہلے ہی سرکاری تنخواہ مل رہی تھی اور انہیں اس کام کے کوئی مزید پیسے نہیں دیے جاتے۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ اس پر اخراجات بہت کم ہیں اور اس نے اداروں کی ریکوریز میں معاونت فراہم کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 'آج تک اس قومی اسمبلی میں اہم قانون سازی زبردستی پاس کرائی گئی'
پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے سوال کیا کہ براڈ شیٹ سے معلومات حاصل کرنا ایسٹ ریکوری یونٹ کے تحت آتا ہے یا نہیں اور کیا اس طرح کے اور بھی اداروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔
انہوں نے مزید سوال کیا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ اداروں کے درمیان رابطے قائم کرنے کے علاوہ اور کیا کام کرتا ہے۔
شہزاد اکبر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ براڈ شیٹ کا معاہدہ حکومت کے ساتھ 2000 میں ہوا اور 2003 میں منسوخ ہوگیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد 2008 میں اس کا حکومت سے دوبارہ رابطہ ہوا جس وقت انہیں 10 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کی گئی اور اس کی دوسری کمپنی انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری کو 2 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ 2009 میں نوٹس ملا کہ براڈ شیٹ کے پیسے غلط کمپنی کو دے دیے گئے ہیں، پھر اس کمپنی کی آربیٹریشن کا عمل اسٹارٹ ہوا اور 2016 میں اس کا اختتام ہوا اور حکومت پاکستان پر واجب الادا مقرر کی گئی، 2018 کے مئی یا جون میں اس کا کوانٹم کا فیصلہ بھی آیا جس کی مد میں ساڑھے 21 ارب روپے کا جرمانہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ 2003 میں معاہدہ منسوخ ہونے کے بعد اس وقت حکومت کا براڈ شیٹ سے کوئی ورکنگ ریلیشن نہیں۔
مشیر احتساب کا کہنا تھا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کسی بھی نجی ایجنسی کے ساتھ مل کر کام نہیں کر رہا ہے اور کسی کے ساتھ نیا معاہدہ نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اے آر یو رابطوں کے علاوہ تحقیقات میں معاونت، بین الاقوامی ایجنسیز کے ساتھ مل کر کام کرنا اور بیرون ملک معاونت مدد دلوانے کا کام کیا ہے۔
مزید پڑھیں: 'قومی اسمبلی کو تھیٹر بنا دیا گیا ہے سیٹی بجتی ہے تو اجلاس ہوجاتا ہے'
بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے ضمنی سوال کرنے کے لیے اسپیکر سے درخواست کی جسے اسپیکر نے مسترد کردیا جس پر لیگی رہنما اور اسپیکر اسمبلی کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔
لیگی رہنما احسن اقبال نے کہا کہ آپ لیڈر ہیں آپ کو مسلم لیگ (ن) نظر نہیں آتی جس پر اسپیکر اسمبلی نے کہا کہ آپ وزیر رہے ہیں خود کو پروفیسر کہتے ہیں، طریقے سے بات کریں۔
مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی چوہدری فقیر احمد نے پورنوگرافی سے معاشرے میں بگاڑ کے حوالے سے قانون سازی کا مطالبہ کیا اور سوال کیا کہ سائبر کرائم کے کتنے مقدمے ہوئے اور لوگوں کو سزائیں ہوئی ہیں۔
علی محمد خان نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور لوگوں کو بلیک میل کیا جارہا ہے، اس کے لیے قانون سازی کی جارہی ہے اور پیکا ایکٹ میں وقتاً فوقتاً ترمیم بھی کی جارہی ہے۔
مقدمات اور سزاؤں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس کے بارے میں نیا سوال دے دیا جائے تو ہم اس کا پورا جواب دے دیں گے۔
مہناز اکبر نے سوال کیا کہ قانون کی بات کی جاتی ہے قانون کے نفاذ کی بات کب کی جائے گی، جس پر علی محمد خان نے کہا کہ ہمیں ان ہاتھوں کی طرف پہنچنا ہوگا جو ہمارے بچے اور بچیوں کی عزتوں کی طرف جارہے ہیں۔
افضل کھوکھر کی تحریک استحقاق پر فیصلہ محفوظ
مسلم لیگ (ن) کے رہنما افضل کھوکھر نے بات کرنے کا موقع ملنے پر کہا کہ 24 جنوری کو رات کے اندھیرے میں بغیر نوٹس کے حکومت نے میری بہن کا گھر گرایا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ کونسا آپریشن تھا، کس قانون کے تحت اور کس کے کہنے پر کیا گیا'۔
انہوں نے قومی اسمبلی میں تحریک استحقاق پیش کی جس میں انہوں نے کہا کہ 'ڈپٹی کمشنر لاہور، اے ڈی سی ریونیو لاہور، ڈی جی ایل ڈی اے، ڈی جی انسداد بدعنوانی کی استحقاق کا سوال اٹھاتا ہوں اور اس معاملے کو متعلقہ کمیٹی کو بھیجنے کی سفارش کرتا ہوں'۔
اس تحریک کی اہلیت کے حوالے سے اسمبلی میں بابر اعوان نے کہا کہ رول 97 میں کہا گیا ہے کہ تحریک استحقاق پیش کرنے کے حق کی شرائط میں کہا گیا کہ معاملہ قومی اسمبلی کی مداخلت کی ضرورت کے مطابق ہو۔
اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ رول 31 میں کہا گیا ہے کہ معاملہ ہر اسمبلی میں تقریر سے متعلق ہو حتیٰ کہ اسپیکر کی اجازت ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر تقریر کا موضوع اسمبلی میں موجود معاملات کے مطابق ہو، کسی بھی رکن کو تقریر کے دوران عدالتوں میں موجود معاملات پر بات کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان میں کوئی ایسا قانون نہیں کہ کسی رکن اسمبلی کو سرکاری زمین پر قبضہ کرنے کی اجازت دیتا ہو'۔
انہوں نے کہا کہ 'کہا گیا کہ رات کے اندھیرے میں کسی کا گھر اجاڑا گیا، یہ 45 کینال کی سرکاری زمین تھی جس کی قیمت ڈیڑھ ارب روپے تھی، سرکاری زمین واگزار کرائی گئی ہے اور نجی ملکیت میں زمین کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا ہے'۔
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ 'جب کوئی مسئلہ عدلیہ میں ہو تو اسمبلی اپنا کوئی فیصلہ سنا نہیں سکتی اس وجہ سے یہ مسئلہ یہاں نہیں اٹھایا جاسکتا'۔
انہوں نے بتایا کہ 'انہوں نے دو عدالتوں سے رجوع کیا، ہائی کورٹ میں ہم نے بتایا کہ ہم صرف سرکاری زمین کو واگزار کرانا چاہتے ہیں جس پر لاہور ہائی کورٹ نے ان کی درخواست مسترد کردی تھی'۔
بابر اعوان نے کہا کہ کوئی قانون ایسا نہیں کہ آئینی ادارہ کسی قبضہ گروپ کو تحفظ فراہم کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے اسی گروپ سے 80 کینال سے زمین واگزار کرائی جس کی قیمت 3 ارب بنتی ہے، ان سے شیخوپورہ میں ایک ہزار کینال زمین برآمد کرائی جس کی قیمت 7 کروڑ روپے ہے'۔
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ 'قوم حیران ہوتی ہے ان پر جو قبضہ گروپ کے ساتھ کھڑے ہوکر اداروں کو کہتے ہیں کہ ہم تمہیں دیکھ لیں گے'۔
ان کی اس بات پر اپوزیشن ممبران نے اسمبلی میں شور شرابہ کیا اور شدید احتجاج کیا۔
بابر اعوان نے اسپیکر سے استدعا کی کہ یہ چوری اور لوٹے ہوئے مال کے خلاف تحریک ہے اسے مسترد کیا جائے۔
لیگی رہنماؤں کی ایک بار پھر اسپیکر اسمبلی سے تلخ کلامی ہوئی اور اسپیکر اسمبلی انہیں خاموش کراتے رہے۔
بعد ازاں افضل کھوکھر کو رد عمل دینے کا موقع دیا گیا جس پر انہوں نے کہا کہ بابر اعوان صاحب نے میرا نام لے کر مجھ پر الزامات لگائے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے قبضہ کیا ہے، مجھے قبضہ گروپ کہا گیا میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ اسے کمیٹی میں لے کر جائیں، ہم اس کے چوتھے اور بونافائیڈ خریدار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے بھی انکوائری کرائی تھی اس میں بھی ہم سرخرو ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ چند دن قبل 12 لاکھ روپے میں بنی گالہ ریگولرائز ہوسکتا ہے تو ہمارا گھر کس قانون کے تحت گرایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ معزز رکن اسمبلی پر انہوں نے جو الزام لگائے انہیں معافی مانگنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ قبضے کی زمینوں پر بیٹیوں کے بہنوں کے گھر نہیں بنائے جاتے، ہمیں قبضہ گروپ کہا جاتا ہے عمران خان سے بڑا کوئی قبضہ گروپ نہیں، ہم نے زمان پارک نہیں بنائے، ہم نے اپنی بہنوں کو سرکاری فنڈز سے سلائی مشینیں نہیں دلوائیں۔
افضل کھوکھر کا کہنا تھا کہ 'مجھے قبضہ گروپ کہا گیا، کمیٹی میں بابر اعوان ثبوت لے کر آئیں اور ہم بھی ثبوت لے کر آئیں گے، اگر میں جھوٹا نکلا تو جو سزا دیں گے قبول کروں گا مگر آپ جھوٹے نکلے تو کون اس کا جواب دے گا'۔
اس پر اسپیکر اسمبلی نے تحریک استحقاق پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بعد ازاں اسپیکر اسمبلی نے اسمبلی کی کارروائی یکم فروری کو 5 بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔