افغانستان: بم دھماکے میں کالعدم تنظیم کے سربراہ منگل باغ ہلاک
ضلع خیبر کی سب سے خطرناک کالعدم تنظیم لشکر اسلام کے سربراہ منگل باغ افغانستان کے صوبے ننگر ہار میں ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں ہلاک ہوگئے۔
عسکریت پسند رہنما کی ہلاکت کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے ننگر ہار کے گورنر ضیا الحق نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ 'سابقہ خیبر ایجنسی کی ایک عسکری تنظیم لشکر اسلام کے سربراہ منگل باغ، جنہیں منگل باغ آفریدی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، ضلع اچین میں سڑک کنارے منصب بم کے دھماکے میں دیگر 3 افراد کے ہمراہ ہلاک ہوگئے'۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل کچھ افغان نشریاتی اداروں نے منگل باغ کی ہلاکت کو بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کرتے ہوئے کہا تھا کہ چند نامعلوم افراد نے ان کے گھر کے باہر بارودی سرنگیں نصب کردی تھیں اور جب انہوں نے وہاں قدم رکھا تو اپنے خاندان کے کچھ افراد کے ساتھ مارے گئے، ہلاک ہونے والے دیگر افراد کے نام فوری طور پر سامنے نہیں آسکے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: افغانستان سے 'دہشگردی' کیلئے آئے 2 عسکریت پسند 'مقابلے' میں ہلاک
خیال رہے کہ ماضی میں بھی منگل باغ کے ڈرون حملے یا حریف گروپس کے ساتھ جھڑپوں میں ہلاک ہونے کی رپورٹس سامنے آئیں تھی لیکن وہ خود اپنے مبینہ ایف ایم ریڈیو اسٹیشن پر ایک بیان جاری کرکے اس کی تردید کردیتے تھے۔
دوسری جانب خیبر میں انتظامیہ اور سیکیورٹی دونوں حکام کی جانب سے کوئی بیان فوری طور پر سامنے نہیں آیا اور وہ بھی سرحد پار مصدقہ ذرائع سے اس خبر کی تصدیق کے منتظر تھے۔
50 سال سے زائد عمر کے منگل باغ اس وقت نمایاں ہوئے تھے جب اس وقت کی پولیٹیکل انتظامیہ نے جرگے کے فیصلے کے ذریعے مفتی شاکر کو بے دخل کرنے کا حکم دیا تھا تو وہ ان کی جگہ لشکر اسلام کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوگئے تھے، مفتی شاکر ایک متنازع مذہبی رہنما اور منگل باغ کے سرپرست تھے۔
مزید پڑھیں: افغانستان میں امریکا کو مطلوب القاعدہ کا اہم رہنما مارا گیا
مذکورہ عسکری گروہ کی بنیاد مفتی شاکر نے سال 2004 کے وسط میں رکھی تھی جب انہوں نے اپنے مسلح حامیوں سے بیعت لی تھی کہ وہ پیر سیف الرحمن کو زبردستی باڑا سے نکالنے میں ان کی مدد کریں گے۔
باڑا کے ذرائع بتاتے ہیں کہ منگل باغ نوجوانی میں پشاور کے کنٹونمٹ علاقے میں ایک ٹیکسی اسٹینڈ پر گاڑیاں دھویا کرتے تھے اور اس وقت وہ نظریاتی طور پر عوامی نیشنل پارٹی سے متاثر تھے۔
بعدازاں وہ باڑا اور پشاور کے درمیان چلنے والی بس کے کنڈیکٹر اور اس کے بعد ڈرائیور بن گئے، ذرائع کے مطابق وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے اور اپنے آبائی علاقے میں صرف پرائمری کی تعلیم حاصل کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان: نازیان میں ڈرون حملہ، 4 عسکریت پسند ہلاک
سال 2004 میں لشکر اسلام کے سب سے اعلیٰ عہدے پر پہنچنے پر تنظیمی عہدیداران سمیت کئی افراد کو حیران کردیا تھا کیوں کہ نہ صرف وہ تنظیم سے زبردست وابستگی رکھنے والے کئی افراد سے جونیئر تھے بلکہ مزاج کے حساب سے بھی اس 'قیادت' کے اہل نہیں تھے۔
وہ اپنے مخالفین کے خلاف انتہائی بے رحم تھے اور باڑا، بازار زاکاخیل اور تیراہ میں مخالفین کی سرِ عام موت کے لیے انتہائی ظالمانہ طریقے اختیار کیے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ اچین میں منگل باغ کی نمازِ جنازہ ادا کردی گئی ہے جس میں ان کے صرف چند قریبی ساتھی شریک ہوئے۔