22 'غیر قانونی’ املاک واگزار کرالی گئیں، مشیر احتساب
اسلام آباد: وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے اعلان کیا ہے کہ حکومت نے اپوزیشن رہنماؤں کی ملکیت میں 22 'غیر قانونی' املاک واپس لے لیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ 'سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کو فائدہ پہنچانے والے قبضہ مافیا (لینڈ گریبرز) کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'شریف برادران مافیا سے فائدہ اٹھانے سے محروم کردیا گیا ہے'۔
انہوں نے اس کے بارے میں تفصیلات بتائیں کہ انہوں نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں، خاص طور پر پنجاب میں ان کے مطابق اربوں روپے کی ’غیرقانونی طور پرقبضہ کی گئی‘ زمین واگزار کرائی ہے۔
مزید پڑھیں: مریم نواز نے کھوکھر برادران سے زمین واگزار کرانے کے آپریشن کو ’سیاسی انتقام‘ قرار دے دیا
مشیر احتساب نے 'غیر قانونی طور پر قبضہ کی گئی' زمین اور جائیدادوں کی دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سابق رکن قومی اسمبلی ملک سیف الملوک اور سابق رکن صوبائی اسمبلی محمد افضل کھوکھر پر ایک ہزار 25 کنال سے زائد سرکاری اراضی کو غیرقانونی طور پر قبضہ کرنے اور دھوکا دہی کے ساتھ اسے پنجاب انڈسٹریل اسٹیٹس ڈیولپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی (پی آئی ڈی ایم آئی سی) کو انتہائی مہنگی، 7 کروڑ 7 لاکھ 80 ہزار روپے میں فروخت کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ان پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے ایک 18 لاکھ 20 ہزار روپے کی سیل ڈیڈ کے بجائے سرینڈر ڈیڈ درج کی، 22 لاکھ 50 ہزار کے 206 کنال کے چار مرلہ پلاٹ کو سریڈر ڈیڈ کے تحت رجسٹر کروایا جو سراسر غیر قانونی ہے، کھوکھر پیلیس اور اس کے اطراف کی ڈیڑھ ارب روپے کی 45 کنال سرکاری اراضی واگزار کرائی گئی ہے اور دِنشا جی کی ملکیت میں 80 کنال اور 4 مرلہ کی زمین ملزم کے فرنٹ مین مبین، داؤد اور افضل کو منتقل کی گئی تھی'۔
مسلم لیگ (ن) کے مدثر قیوم نہرا، اظہر قیوم نہرا اور مظہر قیوم نہرا پر 10 کروڑ روپے مالیت کی 267 کنال کی سرکاری اراضی پر غیرقانونی طور پر قبضہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا جس کو واگزار کرالیا گیا ہے اور مدثر نہرا کو گزشتہ سال 18 دسمبر کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
سابق وفاقی وزیر خرم دستگیر خان کے والد غلام دستگیر خان پر الزام تھا کہ انہوں نے اہم ترین شاہراہ گرینڈ ٹرنک روڈ پر 9 کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت کے 2 کنال کی سرکاری اراضی پر غیرقانونی قبضہ کیا اور اس پر پیٹرول پمپ / سی این جی اسٹیشن تعمیر کیا۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا زمین کے حصول کیلئے پنجاب یونیورسٹی پر دباؤ
انہوں نے ایک کنال کے کمرشل اسٹیٹ اراضی پر قبضہ کیا اور 6 کروڑ 60 لاکھ روپے مالیت کا اس پر سینما بنایا۔
مشیر نے بتایا کہ غلام دستگیر خان جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قبل از گرفتاری ضمانت پر ہیں، سے 5 کروڑ 46 لاکھ 60 ہزار روپے کی اراضی کا کرایہ وصول کیا جائے گا۔
شہزاد اکبر نے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی محسن شاہ نواز رانجھا اور ان کے والد پر 'کالے دھن' کو چھپانے کے لیے ایک کروڑ 56 لاکھ 80 ہزار روپے کے 13 ایکسچینج ڈیڈ رجسٹرڈ کرنے کا الزام عائد کیا اور اس کے بدلے میں کوئی زمین نہیں دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ نیب لاہور ان کے اربوں روپے مالیت کے سرگودھا میں 2 ہزار کنال اراضی کے 'غیر قانونی' اثاثے کے حوالے سے بھی انکوائری کررہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل نیئر بخاری پر الزام تھا کہ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی کی 4 کروڑ 80 لاکھ روپے مالیت کی 60 کنال سرکاری اراضی پر غیر قانونی طور پر قبضہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: لاہور: انتظامیہ نے منشابم سے غیر قانونی 80 کینال اراضی واگزار کرالی
اسلام آباد کی مقامی انتظامیہ اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے یہ زمین دوبارہ حاصل کی ہے۔
سابق سینیٹر چوہدری تنویر پر راولپنڈی میں 7 ارب روپے مالیت کے 5 ہزار کنال کی بے نامی زمین پر قبضہ کرنے 27 کنال کمرشل اراضی (سرکاری زمین) پر قبضہ کرنے کا الزام تھا۔
یہ زمین دوبارہ حاصل کرلی گئی ہے اور ان کے خلاف جون 2019 میں ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر دانیال عزیز کے والد محمد عزیز پر الزام ہے کہ انہوں نے سرگودھا میں 2 ارب 50 کروڑ روپے کی 2400 کنال کی سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ کیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے میاں جاوید لطیف پر یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے 8 کنال کی سرکاری اراضی پر ناجائز قبضہ کیا ہے اور 3 کروڑ 40 لاکھ روپے کی آٹا مل کے مالک ہیں، ان سے بھی زمین دوبارہ حاصل کرلی گئی ہے۔