کپڑے کے اوپر سے جسم کو ہاتھ لگانا جنسی ہراسانی نہیں، بھارتی عدالت
بمبئی ہائی کورٹ نے جنسی ہراسانی کے ایک ملزم کی درخواست پر ماتحت کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ کسی بھی بچی کے جسم کو کپڑے کے اوپر سے ہاتھ لگانے کو جنسی ہراسانی نہیں کہا جا سکتا۔
بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق بمبئی ہائی کورٹ کی ناگپور برانچ کی سنگل بینچ عدالت نے مذکورہ فیصلہ 19 جنوری کو دیا تھا تاہم اب اس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا۔
بمبئی ہائی کورٹ کی خاتون جج جسٹس پشپا وریندرا گینڈیوالا نے ملزم ستیش بندھورگڑے کی درخواست پر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ کپڑے اتارے بغیر بچی کے جسم کو ہاتھ لگانا جنسی ہراسانی نہیں ہے تاہم یہ ایک خاتون یا شخص کی تضحیک ہے۔
جسٹس پشپا وریندرا گینڈیوالا نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ مذکورہ کیس میں یہ شواہد نہیں ملے کہ ملزم نے براہ راست جسمانی چھیڑ چھاڑ یا پینیٹریشن کی ہو۔
عدالت کے مطابق کسی بھی 12 سالہ بچی کے جسم کو کپڑے کے اوپر ہاتھ لگانا پروٹیکشن آف چلڈرن فرام سیکسوئل افینسز (پاکسو) ایکٹ کے تحت نہیں آتا تاہم یہ عمل کسی بھی خاتون یا بچی کے وقار کو مجروح کرنا ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: جنسی ہراسانی کی اطلاع دینے والے کیمروں سے رازداری کو خطرہ
خاتون جج نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ استغاثہ نے بتایا کہ ملزم نے بچی کے کپڑے کو ہٹاکر ان کے سینے کو چھوا تاہم واضح طور پر اس کے ثبوت نہیں فراہم کیے گئے کہ آیا ملزم نے بچی کے سینے پر سے تمام کپڑے ہٹائے یا نہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں ناگپور کی ماتحت عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم کو پاکسو ایکٹ کے تحت نہیں بلکہ انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) کی دفعہ 354 کے تحت سزا سنائی۔
مذکورہ دفعہ کے تحت اب ملزم کو زیادہ سے زیادہ 5 اور کم از کم ایک سال سزا ہوگی جبکہ بمبئی ہائی کورٹ سے قبل ماتحت عدالت نے ملزم کو آئی پی سی کی دفعہ 354 سمیت پاکسو کی دفعہ 8 کے تحت سزا سنائی تھی۔
ماتحت عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کے مطابق ملزم کو کم از کم 3 سال سزا ہوسکتی تھی تاہم اب انہیں کم از کم ایک سال سزا ہوگی۔
دی پرنٹ نامی ویب سائٹ کے مطابق خاتون جج کا کہنا تھا کہ جنسی ہراسانی اس وقت ہی ہوتی ہے جب کپڑوں کے بغیر جسمانی طور پر مداخلت یعنی پینیٹریشن کی جائے۔
اسی حوالے سے ٹائمز آف انڈیا نے بتایا کہ ملزم کی جانب سے کم عمر بچی کو جنسی ہراساں کیے جانے کا واقعہ 2016 میں پیش آیا تھا اور ماتحت عدالت نے ملزم کو گزشتہ برس فروری میں سزا سنائی تھی۔
رپورٹ کے مطابق بچی نے اپنے بیان حلفی میں بتایا تھا کہ ملزم انہیں کسی بہانے سے اپنے گھر لے گئے تھے، جہاں ملزم نے ان کے سینے کو چھونے کے علاوہ ان کے کپڑے اتارنے کی کوشش کی تھی، جس پر انہوں نے شور مچایا تو ملزم بھاگ گیا۔
بچی کے مطابق ان کی جانب سے شور مچانے کے بعد ملزم کے چلے جانے کے بعد والدہ انہیں ڈھونڈتی ان تک پہنچیں اور انہوں نے والدہ کو پوری کہانی سنائی۔
والدہ نے بچی کی شکایت کے بعد ملزم پر بچی کو اغوا کرنے اور ان کے ساتھ جنسی ہراسانی کا مقدمہ کردیا تھا اور پولیس نے انہیں عدالت میں پیش کیا تھا، جہاں ناگپور کی عدالت نے ملزم کا پاکسو ایکٹ کے تحت سزا سنائی تھی۔
مزید پڑھیں: بھارت: ہر 15 منٹ میں ایک خاتون کا ریپ
تاہم ملزم نے ماتحت عدالت کے فیصلے کے خلاف بمبئی ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا، جس نے ماتحت عدالت کے فیصلے کو بدل دیا۔
بمبئی ہائی کورٹ کی خاتون جج کی جانب سے بچی کے استحصال سے متعلق متنازع فیصلے پر بچوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے عدالتی فیصلے کو غلط قرار دیا ہے۔
کئی سماجی رہنماؤں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا کہ کس طرح ایک خاتون جج ایسا فیصلہ دے سکتی ہیں جب کہ قانونی ماہرین کے مطابق بچوں کو جنسی ہراسانی سے بچانے کے پاکسو ایکٹ میں اس طرح کی کوئی متنازع بات نہیں، جس طرح خاتون جج نے بیان کی۔
بچوں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بعض تنظیموں نے بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔