• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

حکومت سے مذاکرات، اپوزیشن پیچھے ہٹ گئی

شائع January 26, 2021
اپوزیشن مذاکرات کے لیے نہیں گئی کیونکہ مسلم لیگ (ن) اپنی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں مصروف ہے، نوید قمر - فائل فوٹو:وائٹ اسٹار
اپوزیشن مذاکرات کے لیے نہیں گئی کیونکہ مسلم لیگ (ن) اپنی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں مصروف ہے، نوید قمر - فائل فوٹو:وائٹ اسٹار

اسلام آباد: حکومت اور اپوزیشن کے پیر کے روز ہونے والے طے شدہ مذاکرات اب نہیں ہوں گے کیونکہ اپوزیشن معاملات حل کرنے کے لیے حکومتی اراکین کے ساتھ بیٹھنے میں دلچسپی نہیں لے رہی۔

تاہم پارلیمنٹ ہاؤس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس، جس میں پارٹی کی نائب صدر مریم نواز نے بھی خطاب کیا تھا، اپوزیشن نے اجلاس کے انعقاد کا خیال مسترد کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن نے کورم کی نشاندہی کی، اگر حکومتی اراکین مطلوبہ تعداد ایوان میں لانے میں کامیاب ہو بھی جاتے تو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران احتجاج کی پوری تیاری کی جاچکی تھی۔

تاہم حکومت کی جانب سے کورم پورا نہیں ہوسکا جس کے بعد ایوان زیریں کی کارروائی منگل (آج) شام 4 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن کا اداروں سے جمہوری حکومت ختم کرنے کا مطالبہ مضحکہ خیز ہے، شبلی فراز

اُمید کی جارہی تھی کہ پیر کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس نے سیاسی درجہ حرارت کو کم کردیا ہوگا تاہم اس کے بجائے دونوں فریقین کے درمیان خلیج مزید وسیع ہوگئی۔

یہاں تک کہ اپوزیشن کے ارکان نے حکومتی مخالفت میں تحریر نعروں کے پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے۔

انہوں نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے سامنے اپنے جیلوں میں موجود رہنما، شہباز شریف، خواجہ آصف اور خورشید شاہ کی تصویریں بھی اپنے میزوں پر رکھی تاہم کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے کارروائی رکنے کے بعد اپوزیشن نے ایوان میں احتجاج نہیں کیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما سید نوید قمر نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ اپوزیشن مذاکرات کے لیے نہیں گئی کیونکہ مسلم لیگ (ن) اپنی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں مصروف تھی۔

یہ بھی پڑھیں: 'اپوزیشن کے استعفوں کے باوجود سینیٹ انتخابات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا'

انہوں نے مزید کہا کہ ہم مسلم لیگ (ن) کے بغیر حکومت سے نہیں مل سکتے۔

دوسری طرف وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے ڈان کو بتایا کہ پیپلز پارٹی کے اراکین اجلاس کے لیے آئے تھے لیکن مسلم لیگ (ن) کے نمائندے نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'ہماری (حکومت-اپوزیشن) کی جمعہ کی میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ ہم پیر کو دوبارہ ملاقات کریں گے تاہم اپوزیشن نے آج اپنے وعدے کو پورا نہیں کیا'۔

سوال کیا گیا کہ پیپلز پارٹی سے اجلاس کے لیے کون آیا تھا تو وزیر مملکت نے بتایا کہ 'صرف نوید قمر'۔

تاہم وزیر مملکت نے اشارہ دیا کہ حکومت آنے والے دنوں میں اپوزیشن کو مذاکرات کے ایک اور دور کے لیے مدعو کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

نوید قمر نے جمعہ کے روز ڈان کو بتایا تھا کہ پیر کو اجلاس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے نمائندے (وہ اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی) شریک ہوں گے جبکہ وزیر دفاع پرویز خٹک حکومت کی طرف سے نمائندگی کریں گے۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر اجلاس کی صدارت کرنے والے تھے۔

مزید پڑھیں: حکومت مخالف اپوزیشن کی تحریک میں اصل ’رسک‘ کیا ہے؟

اپوزیشن بینچز سے تعلق رکھنے والے ایک مسلم لیگ (ن) کے رکن عمران شاہ نے وقفہ سوال و جواب کے بعد قومی اسمبلی میں کورم کی نشاندہی کی۔

وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے ایجنڈے کے آئٹم نمبر 4 کو پڑھنا شروع کیا جو ایوان سے پہلے فیڈرل میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ آرڈیننس 2020 سے متعلق تھا تو کورم کی نشاندہی کی گئی۔

اس پر اسپیکر نے گنتی کا حکم دیا اور کورم نامکمل پایا گیا، نتیجتاً اسپیکر نے کورم مکمل ہونے تک کارروائی ملتوی کردی۔

قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ملک عامر ڈوگر نے حکومت کی طرف سے مزید اراکین کو واپس لانے کی پوری کوشش کی تاہم کوئی فائدہ نہ ہوسکا۔

وہ پی ٹی آئی کے اپنے ساتھی ارکان سے اپنے ساتھیوں کو فون کرنے کو کہتے رہے جو وقفہ سوال و جواب کے دوران ایوان سے نکلے تھے۔

ملک عامر ڈوگر نے سوال کیا کہ 'علی نواز اعوان، صداقت عباسی، ملیقہ بخاری اور دیگر کہاں ہیں؟' جو پریس گیلری میں بیٹھے صحافیوں کو بھی سنائی دیا۔

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری ان کے پاس آئیں اور انہیں اطلاع دی کہ پارٹی کی 5 خواتین اراکین وزیر تعلیم شفقت محمود کے چیمبر میں بیٹھی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'انہیں فوری طور پر کال کریں'۔

قریب ایک گھنٹے کے بعد ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری جو ایوان کی صدارت کر رہے تھے، نے اجلاس دوبارہ شروع کرنے کی کوشش کی اور دوبارہ گنتی کا حکم دیا تاہم حکومت پھر سے مطلوبہ قوت کو یقینی بنانے میں ناکام رہی جس کے بعد کارروائی ملتوی کردی گئی۔

اس سے قبل وقفہ سوال و جواب میں خستہ حال ریلوے نظام، ٹڈی دل حملہ، جی -6 میں وزارت مذہبی امور کی عمارت کی نیلامی، جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں اضافہ سمیت متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

سابق وزیر ریلوے شیخ رشید احمد، جن کے پاس اس وقت وزارت داخلہ کا قلمدان موجود ہے، کے لمبے دعووں کے باوجود اپوزیشن نے ریلوے سروس میں کوئی بہتری نہیں لانے پر حکومت پر تنقید کی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024