جیل سے عمر شیخ کے دہشتگردوں سے رابطے ہونا سندھ حکومت کی ناکامی ہے، ایڈووکیٹ جنرل
سپریم کورٹ میں ڈینیئل پرل قتل کیس کے ملزمان کی رہائی کے باوجود حراست سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے اعتراف کیا ہے کہ دورانِ حراست جیل سے عمر شیخ کے دہشت گردوں سے رابطے ہونا سندھ حکومت کی ناکامی ہے۔
جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
سماعت میں جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کی تحویل کے 3 حکمنامے اپنی مدت پوری کر چکے، ملزمان کو حراست میں رکھنے کا مزید کوئی حکم موجود نہیں تو حکم امتناع کس بات پر دیں؟
یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: ملزم عمر شیخ پر دہشتگردی کے الزامات کا جواب طلب
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کسی کو تاحیات حراست میں نہیں رکھا جا سکتا، اگر سندھ حکومت کے پاس معلومات ہیں تو کیس کیوں نہیں بنایا؟
سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کے جیل سے دہشت گردوں کے ساتھ روابط کا انکشاف ہوا، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ انٹیلی جنس مواد ہے لیکن عدالت میں کیس ثابت نہیں کر سکیں گے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ جیل میں احمد عمر شیخ سے 7 موبائل سمیں برآمد ہوئی تھیں جن میں سے دو برطانیہ کی تھیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ سے استفسار کیا کہ جیل میں ملزم کے موبائل استعمال کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے اعتراف کیا کہ جیل سے دہشت گردوں کے ساتھ روابط ہونا سندھ حکومت کی ناکامی ہے۔
مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: ’جب بھی مقدمے کی سماعت ہوتی ہے بین الاقوامی لابی متحرک ہوجاتی ہے‘
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے مزید بتایا کہ احمد عمر شیخ نے جیل سے مشکوک افراد کو کالز کی تھیں، ملزم کی رہائی کے لیے جیل توڑنے کی کوشش میں 97 افراد گرفتار ہوئے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے مزید کہا کہ احمد عمر شیخ ملک دشمنوں کا ایجنٹ ہے جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ احمد عمر کو حراست میں رکھنے کے حکم نامے میں دشمن ایجنٹ ہونے کا ذکر ہی نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سندھ حکومت چاہتی ہے کہ احمد عمر شیخ کو ملک دشمن وہ نہیں عدالت قرار دے۔
سپریم کورٹ نے احمد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کی رہائی سے متعلق ہائی کورٹ کا حکم معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
یہ بھی پڑھیں: 'ڈینیئل پرل قتل کیس میں کہانیاں گھڑی گئی ہیں'
علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کی شیڈول 4 میں رکھے گئے افراد سے متعلق ایک اپیل پر اٹارنی جنرل پاکستان اور تمام ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کر دیے جبکہ کیس کی مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کردی۔
ڈینیئل پرل قتل کیس
یاد رہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔
سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: ملزمان کی رہائی کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد
بعد ازاں حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کے مقدمے میں 4 ملزمان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزا کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلی تھیں جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا جو کہ وہ پہلے ہی پوری کرچکے تھے۔
تاہم رہائی کے احکامات کے فوری بعد ہی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) نے سندھ حکومت کو خط لکھا تھا جس میں ملزمان کی رہائی سے نقصِ امن کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: حکومت سندھ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر
چنانچہ مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈیننس کے تحت صوبائی حکام نے انہیں 90 دن کے لیے حراست میں رکھا تھا، یکم جولائی کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس کے تحت مزید تین ماہ کے لیے انہیں حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں ان کی قید میں مزید توسیع ہوتی رہی۔
تاہم 25 دسمبر کو سندھ ہائی کورٹ نے ڈینیئل پرل قتل کیس میں رہا ہونے والے چاروں ملزمان کو زیر حراست رکھنے کے لیے صوبائی حکام کے جاری کردہ 'پریوینشن ڈیٹینشن آرڈرز' کو [کالعدم قرار][5] دے دیا تھا۔
یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے ملزمان کی رہائی کے حکم کے خلاف حکومت سندھ اور صحافی کے اہلِ خانہ کی جانب سے دائر درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔