بھارت اور چینی فوجیوں کی سرحد پر پھر جھڑپ، متعدد فوجی زخمی
ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں خونریز تصادم کے چھ ماہ بعد ہندوستانی اور چینی فوجیوں کی متنازع سرحد پر ایک مرتبہ پھر کشیدگی دیکھی جارہی ہے اور شنالی سکم کی سرحد پر ہونے والی جھڑپ میں دونوں فریقین کے متعدد فوجی زخمی ہوگئے ہیں۔
ذرائع نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ یہ واقعہ ریاست سکم کے نکولا پاس میں گزشتہ ہفتے پیش آیا تھا، میڈیا رپورٹس میں ہندوستانی فوجی حکام کے حوالے سے بتایا گیا کہ دونوں فریقین کے فوجی زخمی ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں: سرحدی علاقے میں چین سے جھڑپ، افسر سمیت 20 بھارتی فوجی ہلاک
بھارتی فوج نے چین کے ساتھ ریاست سکم میں نکولا پاس کے قریب ہونے والے حالیہ تنازع کو معمولی قرار دیا۔
بھارتی فوج کی جانب سے یہ مختصر بیان میں کہا گیا کہ پہلے سے طے شدا پروٹوکولز کے تحت مقامی کمانڈرز نے معاملہ حل کردیا ہے۔
بھارت کے حکومتی ذرائع کے مطابق گشت پر مامور چینی فوجیوں سے جھڑپ میں چار بھارتی فوجی زخمی ہوئے، انہوں نے چین کی پیپلز لبریشن آرمی کو نامعلوم حد تک نقصان پہنچایا ہے۔
بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق شمالی سکم کے علاقے نکولا میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تصادم ہوا جس میں کئی فوجی زخمی ہوئے۔
رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ صورتحال اب مکمل طور پر کنٹرول میں ہے اور دونوں ممالک کی افواج کے اعلیٰ حکام اعلیٰ سطح کے مذاکرات کے ذریعے معاملات حل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
اس سے قبل بھی دونوں ممالک کی افواج کے درمیان آخری تصادم اسی مقام پر 9 مئی کو ہوا جس میں دونوں فریقین کے مجموعی طور پر 150 فوجیوں کے درمیان غیر مسلح تصادم ہوا تھا اور نتیجتاً متعدد فوجی زخمی ہوئے تھے۔
مذکورہ واقعے سے چند دن قبل 5 مئی 2020 کو مشرقی لداخ میں دونوں ممالک کے درمیان خطرناک تصادم میں 250 فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: چین، بھارت کے سرحد میں کشیدگی کم کرنے کیلئے مذاکرات
ایٹمی طاقت سے لیس دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کئی دہائیوں سے فوجی بحران جاری ہے جس میں حالیہ کچھ عرصے میں شدت آئی ہے اور مغربی ہمالیہ میں گزشتہ سال جون میں دونوں فوجوں کے درمیان ہونے والے غیرمسلح تصادم میں 20 بھارتی فوجیوں کے ساتھ ساتھ نامعلوم تعداد میں چینی فوجی بھی مارے گئے تھے۔
اس حادثے کے بعد دونوں فریقین نے معاملات میں بہتری کے لیے مذاکرات شروع کیے تھے اور کہا تھا کہ وہ سرحد پر صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے راہیں تلاش کررہے ہیں لیکن بات چیت کے نتیجے میں بہت کم پیشرفت ہوئی ہے اور دونوں فریقین نے شدید سردی کے باوجود علاقے میں بھاری نفری تعینات کر رکھی ہے۔
گزشتہ ماہ ہندوستان کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ تصادم کو روکنے کے مقصد سے ہونے والے سفارتی اور فوجی مذاکرات کے متعدد دوروں سے 'کوئی معنی خیز نتیجہ' برآمد نہیں ہو سکا۔
راج ناتھ سنگھ نے برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے ساتھ اشتراک کرنے والے ادارے اے این آئی کو انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ اگر حالات بدستور برقرار رہتے ہیں تو یہ یقینی ہے کہ فوجی نفری میں کمی نہیں کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: سیٹلائٹ تصاویر: وادی گلوان میں چین کی عسکری سرگرمیوں میں اضافہ
لیکن انہوں نے کہا کہ دونوں فریق ابھی بھی سرحدی صورتحال پر پیغامات کا تبادلہ کر رہے ہیں اور فوجی مذاکرات کا ایک اور دور بھی آخری مرحلے میں ہے۔
حال ہی میں دونوں فریقین کے درمیان اتوار کو کشیدگی میں کمی کے لیے مذاکرات ہوئے لیکن دونوں فریقین میں سے کوئی بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔
بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے گزشتہ ماہ اپنے بیان میں کہا تھا کہ گزشتہ سال ہونے والے واقعات کے نتیجے میں دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات بری طرح خراب ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ بھارت اور چین اپنے تقریباً 3500 کلومیٹر (2 ہزار میل) طویل سرحد پر اتفاق نہیں کرسکے ہیں اور اس کے لیے 1962 میں دونوں کے درمیان جنگ بھی ہوئی تھی تاہم نصف صدی کے دوران گزشتہ موسم گرما میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی انتہائی عروج پر پہنچ گئی تھی۔