ناول پر بننے والی وہ فلم سیریز جس کا دورانیہ کتاب سے زیادہ
ایک ناول جس کو ایک نشست میں پڑھنے میں ساڑھے پانچ گھنٹے لگے مگر اس پر بننے والی فلموں کو دیکھنے میں ساڑھے آٹھ گھنٹے کا عرصہ گزارنا پڑے تو آپ کس کو ترجیح دیں گے؟
ہوسکتا ہے کہ آپ کی پسند ناول ہو مگر اس صورت میں آپ اس ایڈونچر اور تخلیقی خوبصورتی سے محروم رہ جائیں گے جو باکمال ڈائریکٹر پیٹر جیکسن نے ہوبٹ سیریز کا حصہ بنا کر اسے ناول (درحقیقت مختصر ناولٹ) سے بھی زیادہ بہتر بنادیا ہے۔
دسمبر 2001 میں پیٹر جیکسن نے جان رونالڈ روئل ٹولکین (جے آر آر ٹولکین) کی "لارڈ آف دی رنگ : فیلوشپ آف دی رنگ" سے جو سفر شروع کیا وہ آخر کار 2014 میں "دی ہوبٹ : دی بیٹل آف دی فائیو آرمیز" میں آکر ختم ہوا۔
تیرہ برس اور سترہ گھنٹوں سے زائد طویل ان دو سیریز کی چھ فلموں میں بلاشبہ سبقت تو "لارڈ آف دی رنگ سیریز" کو ہی حاصل ہے خاص طور پر اس کا تیسرا حصہ "ریٹرن آف دی کنگ" ہر لحاظ سے کلاسیک اور دیکھنے والوں کو مسحور کردینے کے لیے کافی ہے مگر ہوبٹ کی داستان بھی کسی سے کم نہیں اور ڈائریکٹر نے واقعی کمال کر دکھایا۔
پلاٹ
یہ داستان چند بونوں، ایک ہوبٹ اور جادوگر کی جدوجہد پر مبنی ہے۔
یہ بونے اور ان کا جلاوطن بادشاہ تھورین اوکن شیلڈ (رچرڈ آرمیٹیج) اپنی کھوئی ہوئی ریاست کو ایک ڈریگن سے چھڑا کر وہاں پھر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، جن کی مدد بیلبو بیگن (مارٹن فری مین) اور گینڈالف (آئین مکیلین) کرتے ہیں۔
اس سفر کا اختتام ایک بہت بڑی جنگ کے ساتھ ہوتا ہے، جس میں انسان، بونے، جادوگر اور دیگر مخلوقات شریک ہوتی ہیں۔
اگرچہ ہوبٹ سیریز اپنی سابقہ تین فلموں جتنی پراثر نہیں مگر لالچ، ہمت، مہم جوئی اور ہر رکاوٹ کے سامنے پرعزم رہنے کا جذبہ اس کی جان ہے۔
جنگ کے اختتام پر آپ خود کو ایک جذباتی کیفیت میں محسوس کریں گے اور اندر ایک جوش سا ابھر رہا ہوگا کیونکہ یہاں ویژول، فینٹسی کا احساس، حیرت اور باریک بینی اپنے عروج پر نظر آتی ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ ڈائریکٹر نے اپنی سابقہ فلموں کے تمام بہترین عناصر یہاں جمع کردیئے ہیں اور ہوبٹ سیریز کی دو فلموں کے تمام منفی پہلوﺅں کو دبا کر رکھ دیا ہے۔
چند دلچسپ حقائق
ویسے تو ہوبٹ سیریز لارڈ آف دی رنگ کے بعد بنائی گئی مگر 1994 میں ڈائریکٹر اسے پہلے بنانا چاہتے تھے، بلکہ وہ اس کی کہانی ایک پوری فلم میں دکھا کر مزید 2 حصوں میں لارڈ آف دی رنگز کی کہانی بیان کرنا چاہتے تھے۔
مگر ایسا ممکن نہیں ہوسکا اور انہیں پراجیکٹ کا خیال ترک کرنا پڑا اور کئی برس بعد دوبارہ اس پر کام شروع ہوا تو لارڈ آف دی رنگز کو پہلے فلمایا گیا۔
آخری فلم دی بیٹل آف دی فائیو آرمیز کے پاس کسی فلم میں کسی جنگ کے طویل ترین سیکونس کا عالمی ریکارڈ بھی ہے، جو 45 منٹ تک جاری رہی تھی۔
گینڈالف (آئین مکیلین) کے بیشتر سین دیگر کاسٹ سے الگ تھے تو اداکار کو گھنٹوں ایک باکس میں گزارنے پڑتے تھے، جس میں ایک مائیکرو فون اور چند تصاویر کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا، وہ اس سے اتنے اپ سیٹ ہوئے کہ ایک بار رونے لگے۔
اس سیریز میں ڈریگن کا کردار بہت اہم تھا اور اس کی گرج اتنی زوردار تھی کہ برازیل میں اسکریننگ کے دوران ایک سنیما کے اسپیکر پھٹ گئے۔