بھارت: جنسی ہراسانی کی اطلاع دینے والے کیمروں سے رازداری کو خطرہ
نئی دہلی: ڈیجیٹل حقوق کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ سڑک پر ہراساں ہونے والی خواتین کے تحفظ کے لیے چہرے کو شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کے ذریعے خواتین کے تاثرات کی نگرانی کے لیے بھارت میں پولیس کے ایک منصوبے سے مداخلت کی پولیسنگ اور رازداری کی خلاف ورزی ہوگی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس کمشنر ڈی کے ٹھاکر نے بتایا کہ نئی دہلی سے تقریباً 500 کلومیٹر دور لکھنؤ میں پولیس نے 200 کے قریب ہراساں کرنے والے مقامات کی نشاندہی کی جہاں خواتین اکثر جاتی ہیں اور جہاں سے اکثر شکایات کی اطلاع ملتی ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت میں 'نچلی ذات کی خواتین کو اونچی ذات کے مرد ریپ کا نشانہ بناتے ہیں'
انہوں نے کہا کہ 'ہم 5 مصنوعی ذہانت پر مبنی کیمرے لگائیں گے جو قریبی پولیس اسٹیشن کو الرٹ بھیجیں گے'۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ 'یہ کیمرے خواتین کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات دیکھتے ہی متحرک ہوجائیں گے'۔
بھارت میں ہوائی اڈوں، ریلوے اسٹیشنز اور کیفوں پر چہرے کی شناخت کی ٹیکنالوجی کو تیزی سے نصب کیا جارہا ہے جس کے تحت پولیس فورس کو جدید بنانے، معلومات اکٹھا کرنے اور مجرموں کی شناخت کے عمل کے لیے ملک گیر نظاموں کا منصوبہ ہے۔
تاہم ٹیکنالوجی ماہرین اور رازداری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے فوائد واضح نہیں ہیں اور یہ رازداری کی خلاف ورزی کرسکتے ہیں یا زیادہ نگرانی کا باعث بن سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کس طرح کام کرتی ہے، ڈیٹا کو کس طرح محفوظ کیا جاتا ہے اور ڈیٹا تک کون رسائی حاصل کرسکتا ہے، اس بارے میں اب تک پوری طرح وضاحت بھی نہیں کی گئی ہے۔
ڈیجیٹل حقوق کے غیر منافع بخش تنظیم انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کی ایسوسی ایٹ وکیل انوشکا جین نے کہا کہ 'یہ سارا خیال نہایت بے وقوفانہ ہے کہ کیمرے کے ذریعے خواتین کے تاثرات پر نظر رکھی جائے تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ وہ تکلیف میں ہیں یا نہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: دلت خاتون کا ریپ کے بعد انتقال، شہریوں کا احتجاج
انہوں نے کہا کہ اس ٹیکنالوجی کی اب تک جانچ بھی نہیں کی گئی ہے، پولیس کی گشت کی تعداد میں اضافہ کرنا ایک ممکنہ حل ہوسکتا ہے۔
واضح رہے کہ سرکاری ڈیٹا کے مطابق بھارت، خواتین کے لیے دنیا کا ایک خطرناک ترین ملک ہے جہاں ہر 15 منٹ میں ایک ریپ کا واقعہ رونما ہوتا ہے۔
اترپردیش، جس کا دارالحکومت لکھنؤ ہے، سب سے کم محفوظ ریاست ہے جہاں 2019 میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کی سب سے زیادہ تعداد سامنے آئی تھی۔
لکھنؤ میں خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن روپ ریکھا ورما نے بتایا کہ پولیس اکثر شکایات درج کرانے کے لیے آنے والی خواتین کو واپس بھیج دیتی ہے یا کارروائی کرنے میں ناکام رہتی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اور یہ ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم یقین کریں کہ وہ ہمارے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے کارروائی کریں گے'۔