• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

ملزمان کو بچانے کیلئے کمیشن بنا کر جسٹس عظمت سعید کو لگایا گیا، شاہد خاقان عباسی

شائع January 22, 2021 اپ ڈیٹ January 23, 2021
شاہد خاقان عباسی نے براڈ شیٹ تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ کی نامزدگی مسترد کردی—فائل/فوٹو: ڈان
شاہد خاقان عباسی نے براڈ شیٹ تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ کی نامزدگی مسترد کردی—فائل/فوٹو: ڈان

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے براڈ شیٹ معاملے کی تحقیقات کے لیے نامزد کمیٹی کے سربراہ کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید کی جگہ ایک غیر متنازع آدمی کو مقرر کیا جائے۔

پارلیمنٹ لاجز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وزرا نے بجلی ایک روپے 90 پیسے مہنگی کرنے کا بتایا لیکن اس کی وجہ نہیں بتائی حالانکہ تیل کی قیمتیں کم ہورہی ہیں اور بجلی بنانے کی قیمت سستی ہو رہی، لیکن بجلی کی قیمت بھی بڑھائی جارہی ہے اور ساتھ گردشی قرضے میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: بجلی کے فی یونٹ میں ایک روپے 95 پیسے کا اضافہ کرنے جارہے ہیں، عمر ایوب

حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے یہاں پارلیمنٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس رکھی تھی لیکن صحافیوں کو یہاں آنے سے روک دیا گیا کیونکہ ہم آج براڈ شیٹ کے بارے میں بات کریں گے اور بہت سے پردہ نشینوں کے نام سامنے آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ نام نہاد احتساب کی حقیقت آج عوام کے سامنے آچکی ہے، دستاویزات سامنے آرہی ہیں اور کمیشن پر کمیشن بنائے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم پہلے دن سے کہہ رہے ہیں یہ وہ حکومت ہے جس نے پارلیمان کو مفلوج کردیا ہے اورپارلیمان کی آواز دبانے کے لیے ہر کوشش کی ہے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ قومی اسمبلی کی عمارت کے باہر گزشتہ 10 سال سے میڈیا موجود ہوتا تھا اور مسائل پر کھل کر بات ہوتی تھی لیکن پہلے اس کو ختم کردیا گیا اور آج جہاں اراکین پارلیمنٹ رہتے ہیں وہاں بھی آزادی صلب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو گیس سرپلس چھوڑ کر گئے تھے، جس کو وزیراعظم سے لے کر آخری وزیر جس کو پتہ نہیں ہوتا تھا وہ بھی کہتا تھا کہ مہنگی ایل این جی لے لی، آج اس حکومت نے 3 سے 5 گنا مہنگی ایل این جی خریدی لیکن دینے والے نے پھر بھی نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ آج صنعت، بجلی، سی این جی اور نہ ہی گھروں میں گیس ہے لیکن قیمت ہر روز بڑھتی جارہی ہے، بجلی کی قیمت لوگوں کی دسترس سے باہر ہوگئی ہے۔

حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزرا یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ وہ ناکام کیوں ہوئے، یہ ناکامی صرف نااہلی، نالائقی پر مبنی نہیں ہے بلکہ کرپشن کا ذریعہ ہے، آج پاکستان کی کرپٹ ترین حکومت اقتدار میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں ہر چیز اور ادارے دیکھ لیں کرپشن کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، پنجاب حکومت میں ہر نوکری بک رہی ہے اور ہر چیز پر سودا ہو رہا ہے۔

'براڈ شیٹ معاہدے کے تحت ایک ہزار کروڑ ادا کیے گئے'

براڈ شیٹ معاملے پر بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے کہا کہ براڈ شیٹ کا معاملہ 14 صفحے کے ایک معاہدے سے شروع ہوا، جون 2000 میں اس پر دستخط نیب کے چیئرمین لیفٹننٹ جنرل سید محمد امجد، ڈاکٹر ڈبلیو ایف پیپر کے ہیں اور پراسیکیوٹر جنرل فاروق اعظم خان اور طارق فواد ملک اور دو گواہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: براڈ شیٹ معاملے میں کی گئی ادائیگی، ماضی کی ڈیلز کی قیمت ہے، شہزاد اکبر

ان کا کہنا تھا کہ کمپنی کا نام براڈ شیٹ ایل این سی انگلینڈ ہے، جس کا کوئی وجود نہیں تھا محض چند دن پہلے بننے والی کمپنی سے یہ معاہدہ کیا گیا جو مکمل طور پر یک طرفہ معاہدہ ہے۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کی وجہ سے ہماری خبر کے مطابق ایک ہزار کروڑ روپے حکومت پاکستان ادا کر چکی ہے اور اس میں سے ایک تہائی رقم موجودہ حکومت نے ادا کی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں سے پیسے انگلینڈ بھیجے، وہاں سفارت خانے کے اکاؤنٹ پر بھیجے اور نکالنے کی اجازت دی، ای سی سی اور کابینہ کا فیصلہ ہے، اس کا کوئی جواب دینے والا ہے کیوں اور کس مقصد کے لیے پیسے بھیجے گئے۔

انہوں نے کہا کہ وہ شخص آج الزام لگاتا ہے کہ اس حکومت کے اہلکار وکلا کے ذریعے اور براہ راست رابطے کے ذریعے عدالت نے جو پیسہ ہمیں دیا تھا اس سے حصہ مانگتے تھے، آج وہ لوگ وزرا بھی ہیں اور آئی ایس آئی کے افسروں پر بھی الزام لگا ہے، نہ صرف نیب ایکسپوز ہوا ہے بلکہ ہمارے حساس ترین اداروں اور کابینہ کے وزرا پر الزام لگ رہا ہے اور ملک کی بے عزتی ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کی یہ حقیقت ہے۔

'جسٹس (ر)عظمت سعید معاہدہ کرنے والوں کیلئے کام کرتے تھے'

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ کیٹی بنائی جائے اور وزرا کو کمیٹی میں بٹھایا اور کل اس کے اندر اضافہ کیا گیا، ہم عدلیہ کا احترم کرتے ہیں، جج حاضر ہوں یا سابقہ ہوں لیکن جج حضرات کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس عزت کے اہل ہیں یا نہیں ہیں۔

مزید پڑھیں: جسٹس ریٹائرڈ شیخ عظمت سعید براڈشیٹ انکوائری کمیٹی کے سربراہ مقرر

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج عظمت سعید کو اس کمیشن کا انچارج لگایا گیا، پاکستان میں کمیشنوں کی تاریخ صحت افزا نہیں ہے، حمودالرحمٰن سے لے کر چینی کمیشن تک سب نے معاملات کے حقائق سامنے رکھنے کے بجائے مجرموں کو چھپانے کی کوشش کی۔

ان کا کہنا تھا کہ عظمت سعید وہ شخص ہیں جب یہ معاہدہ ہو رہا تھا تو فاروق اعظم پراسیکیوٹر جنرل تھے اور وہ پنجاب میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل تھے اور براہ راست اس معاہدے پر دستخط کرنے والے لوگوں کے لیے کام کرتے تھے۔

جسٹس (ر) عظمت سعید سے متعلق انہوں نے کہا کہ وہ اس معاہدے کا حصہ ہیں اور ان لوگوں کے لیے کام کر رہے تھے جنہوں نے معاہدے کے ذریعے ملک میں اربوں روپے کی کرپشن کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے دن سے طارق فواد ملک کے ذریعے اس کمپنی میں حصہ دار تھے آج ان لوگوں کو بچانے کے لیے کمیشن بنایا گیا اور اس میں عظمت سعید کو لگایا گیا جو اس وقت خود اس ادارے کا حصہ تھے۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ کیا ہم توقع کر سکتے ہیں یہ ادارہ حقیقت تک پہنچے گا اور حق کی بات کرسکے گا اور بتا سکے گا کہ پاکستان کے عوام کا ایک ہزار کروڑ روپیہ کس نے ضائع کیا، مجھے کوئی امید نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں عظمت سعید صاحب سے گزارش کروں گا کہ آپ سپریم کورٹ کے جج رہے ہیں، معاشرے میں ایک مقام ہے اور آپ پر لازم ہے کہ اس کمیشن کے سربراہ نہ بنیں، اس کمیشن کا سربراہ ایک ایسا غیر متنازع آدمی ہو جو اس معاملے کے حقائق عوام تک پہنچا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بات کرپشن کی نہیں ہے بلکہ اس ملک میں منظم طریقے سے سیاست کو تباہ کرنے کی داستان ہے، سیاست دانوں کو بدنام کرنے کی داستان ہے، سیاسی نظام کو ہتک کا نشانہ بنانے کی داستان ہیں، اس میں بہت سے لوگوں کے نام آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ معاہدہ کسی سیاست دان نے کیا ہوتا تو اخبار بھرے پڑے ہوتے کہ ایک ہزار کروڑ فلاں سیاست دان کھا گیا ہے، نیب نے مقدمہ بنایا ہے اور گرفتار کرلیا اور جیل بھیج دیں گے لیکن آج ان لوگوں سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جو حضرات نیب کے چیئرمین بنے ہوئے تھے اور اپنے رشتے داروں کے ذریعے ایسی کمپنیوں سے معاہدے کر رہے تھے جن کا کوئی وجود نہیں تھا، ان سے کوئی پوچھ سکتا ہے۔

نیب پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو ادارہ نام نہاد طور پر کرپشن روکنے آیا تھا خود کرپٹ ثابت ہوا، کیا کرپٹ لوگ کرپشن روکیں گے۔

'جسٹس (ر) عظمت سعید کا امتحان ہے'

سابق وزیراعظم نے کہا کہ آج عظمت سعید صاحب کا امتحان ہے، آج اس شخص کا امتحان ہے جو پاکستان کی عدالت عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھا رہا، ہمیں جاوید اقبال والا عظمت سعید نہیں چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں وہ جج چاہیئیں جو ان کرسیوں پر بیٹھنے کے اہل ہوں، میں عظمت سعید کے بارے میں بہت باتیں کر سکتا ہوں، جو انہوں نے اس کرسی پر بیٹھ کر فیصلے کیے تھے۔

مزید پڑھیں: براڈشیٹ کمیشن: جسٹس (ر) عظمت سعید کی سربراہی پر اپوزیشن کا اعتراض

جسٹس (ر) عظمت سعید کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آج وہ شوکت خانم ٹرسٹ کے بورڈ پر ہیں کوئی بات نہیں، یہاں تو سلسلہ تو ذاتی دوستوں کو کرسیوں پر لگانے کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ فیصلے بھی اس کرسی پر بیٹھ کر کیے گئے وہ شہادت دیتے ہیں، آج امتحان عظمت سعید کا ہے کہ اس کمیشن کے چیئرمین کی کرسی پر بیٹھ کر متنازع نہ کریں۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آپ اس کمیشن کا حصہ نہ بنیں ورنہ کل آپ کا وہی حال ہوگا جو آج جسٹس (ر) جاوید اقبال کا ہے، آپ کی وہی عزت ہوگی جو جسٹس جاوید اقبال کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جو کرپشن چھپانے، حکومتی معاملات کودبانے کے لیے، حکومت کی نااہلی اور کرپشن کو عوام کی نظر سے دور رکھنے کے لیے آلہ کار بنتا ہے، سیاسی انجینئرنگ اور سیاست کو بدنام کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے اس کو پاکستان کے عوام کبھی معاف نہیں کرتے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ آج ضرورت ہے کہ نیب حقائق سامنے رکھے اور نیب کا بھی امتحان ہے، اس کمیشن کی کارروائی کو عوام کے سامنے رکھا جائے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ایک غیر متنازع آدمی پارلیمان کی اجازت سے اس کمیشن کا چیئرمین لگایا جائے اور اس کی کارروائی عوامی کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ براڈ شیٹ سے متعلق جو حقائق ہمارے پاس ہیں وہ سامنے لاتے رہیں گے۔

میڈیا کو پارلیمنٹ لاجز آنے سے روک دیا گیا، مریم اورنگ زیب

قبل ازیں مریم اورنگ زیب نے میڈیا سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا ہے کہ میڈیا کو پارلیمنٹ لاجز آنے کی اجازت نہیں دی گئی اور میڈیا کو روک دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ جب میں نے شہزاد اکبر کے خلاف میڈیا سے بات کی تھی اس وقت ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے زبانی حکم آیا تھا کہ اپوزیشن کی آئندہ پارلیمنٹ لاجز میں میڈیا ٹاک نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ آزادی اظہار کا ہر پلیٹ فارم مفلوج کیا جائے، پارلیمنٹ کے اندر بولنے نہیں دیتے اور پارلیمنٹ لاجز میں میڈیا کو آنے سے منع کیا۔

مریم اورنگ زیب نے کہا کہ میں نے ان سے تحریری حکم دکھانے کا کہا تو انہوں نے کہا کہ صرف زبانی حکم آیا ہے کیونکہ براڈ شیٹ کے حقائق عوام کے سامنے آنے سے روکنے کی کوشش کی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024