اقوام متحدہ: پاکستان، بھارت کی اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی پر ایک دوسرے پر تنقید
پاکستان اور بھارت نے جمعہ کے روز اس وقت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) میں ایک دوسرے پر اقلیتوں کے حقوق کی صورتحال پر سخت تنقید کی جب اسمبلی نے پاکستان کی شراکت داری سے پیش کی گئی قرار داد منظور کی جس میں مذہبی مقامات کو ہونے والے نقصانات اور تباہی کی مذمت کی گئی تھی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خیبرپختونخوا کے ضلع کرک میں ہندو مندر میں آگ لگانے کے حالیہ واقعے سے متعلق بھارت کے غیرمصدقہ دعووں کو مسترد کرتے ہوئے پاکستانی مندوب ذوالقرنین چھینا نے کہا کہ بھارت دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے اپنے ملک میں اقلیتوں کے حقوق پر توجہ دے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ بھارت نے دوسرے ملک میں اقلیتوں کے حقوق پر تشویش کا اظہار کیا ہے جبکہ بھارت خود اقلیتوں کے حقوق کی سب سے زیادہ اور مستقل خلاف ورزی کرنے والا ملک ہے۔
مزید پڑھیں: اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں پاکستان کی اسپانسر کردہ قرارداد منظور
اس قرارداد کو سعودی عرب نے پیش کیا تھا جس میں دیگر عرب ممالک بشمول مصر، عراق، اردن، کویت، یمن، بحرین، سوڈان، عمان، متحدہ عرب امارات اور اقوام متحدہ میں بطور غیر رکن مبصر ریاست تسلیم کی گئی ریاست فلسطین نے بھی شراکت کی تھی۔
اس کے علاوہ بنگلہ دیش، وسطی افریقی جمہوریہ، ایکواٹوریئل گنی، موریتانیا، مراکش، نائیجیریا، پاکستان، فلپائن اور وینزویلا بھی اس قرارداد میں شریک تھے۔
اسمبلی کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے بھارتی مندوب نے کہا کہ یہ 'ستم ظریفی' ہے کہ پاکستان اس قرارداد میں شریک ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ کرک کے مزار پر حملہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی 'واضح حمایت' کے ساتھ کیا گیا تھا۔
انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ میں بھارتی مندوب کے حوالے سے بتایا گیا کہ 'قرار داد کو پاکستان جیسے ممالک کے چھپنے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے'۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جواب دینے کا اپنا حق استعمال کرتے ہوئے پاکستانی مندوب نے کہا کہ بھارت اور پاکستان میں واضح فرق کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کرک میں مندر میں آگ لگانے والوں کو فوری گرفتار کیا گیا، مندر کی مرمت کے احکامات جاری کیے گئے، اعلی سطح پر عدلیہ اور سیاسی قیادت نے اس واقعہ کا نوٹس لیا اور مذمت کی۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ میں بین المذاہب، بین الثقافتی مذاکرات کے فروغ سے متعلق پاکستان کی قرارداد منظور
ان کا کہنا تھا کہ 'اس کے برعکس بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کے کھلم کھلا اقدامات کیے جاتے ہیں اور وہاں اقلیتیں ریاستی جبر میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں'۔
انہوں نے اس سلسلے میں بھارتی حکومت کے متنازع شہریت، بھارتی شہریوں کی قومی رجسٹر (این آر سی)، 2002 میں گجرات میں قتل عام، مسلم مخالف 2020 دہلی پروگرام، 1992 میں بابری مسجد کو شہید کرنے اور اس کے مجرموں کو بھارتی عدالت کی جانب سے بری کرنے، کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانا، لوو جہاد اور گائو رکھشک اور مغربی بنگال کے مسلمانوں کو 'دیمک' قرار دینا اور بھارت کے زیر اثر مقبوضہ جموں کشمیر میں بے گناہ کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل جیسے اقدامات شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی اور ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کی اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے حقوق کی منظم خلاف ورزیوں اور تشدد کی مثالیں بھری پڑی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی قیادت نے فروری 2020 میں دہلی قتل عام کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا تو درکنار اس کی مذمت تک نہیں کی۔
مزید پڑھیں: پاکستان بھاری اکثریت سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا دوبارہ رکن منتخب
پاکستانی مندوب نے کہا کہ ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی اور امتیازی سلوک کے باعث بھارت انسانی حقوق کے مسئلے پر دعویدار کی حیثیت کے لیے پوزیشن میں نہیں ہے لہذا بھارت کو دوسروں پر الزام تراشی کی بجائے اپنے ملک میں اقلیتوں کے حقوق پر توجہ دینی چاہیے۔
دریں اثنا اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا کہ 'پاکستان مذہبی مقامات پر پرتشدد حملوں کی مذمت میں قائدانہ کردار ادا کرتا رہے گا'۔
اس قرارداد میں 'ثقافتی املاک کو نشانہ بنانے کے بڑھتے ہوئے واقعات کی مذمت کی گئی ہے جس میں مذہبی مقامات اور روایتی اشیا پر دہشت گرد حملوں اور کالعدم تنظیموں کی جانب سے حملے شامل ہیں جس کے نتیجے میں اکثر تباہی ہوتی ہے اور ساتھ ہی چوری شدہ اشیا کی غیر قانونی اسمگلنگ بھی ہوتی ہے'۔
اس میں 'مذہبی مقامات، جگہوں اور مزارات پر بشمول آثار اور یادگاروں کو جان بوجھ کر تباہ کرنا، کی سختی سے مذمت کی گئی ہے جس سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے'۔
اور یہ مذہبی مقامات پر حملہ کرنے، انہیں نقصان پہنچانے یا تباہ کرنے کے تمام خطرات کی مذمت کرتا ہے اور کسی بھی مذہبی مقامات کو ختم کرنے یا زبردستی تبدیل کرنے کے کسی بھی اقدام کی مذمت کرتا ہے۔
اس قرارداد کی حمایت امریکا اور یورپی یونین نے کی اور اتفاق رائے سے اس کی منظوری دی گئی جس میں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے صدر ولکان بوزکیر نے اعلان کیا کہ 'اس کا فیصلہ کرلیا گیا ہے'۔