• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس: خواجہ آصف 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل منتقل

شائع January 22, 2021
نیب حکام خواجہ آصف کے مزید جسمانی ریمانڈ لینے سے متعلق عدالت کو مطمئن نہ کر سکے—فائل فوٹو: فیس بک
نیب حکام خواجہ آصف کے مزید جسمانی ریمانڈ لینے سے متعلق عدالت کو مطمئن نہ کر سکے—فائل فوٹو: فیس بک

لاہور کی احتساب عدالت نے قومی احتساب بیورو(نیب) کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے گرفتار رہنما اور رکن قومی اسمبلی خواجہ آصف کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

احتساب عدالت کے جج جواد الحسن نے نیب کی خواجہ آصف کے مزید جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی سماعت کی لیکن نیب حکام خواجہ آصف کے مزید جسمانی ریمانڈ لینے سے متعلق عدالت کو مطمئن نہ کر سکے۔

سماعت میں دلائل دیتے ہوئے نیب وکیل عاصم ممتاز نے بتایا ک نیب نے خواجہ آصف سے بیرون ملک سے موصول ہونے والی رقم کے بارے پوچھا گیا، خواجہ آصف جس کمپنی کے پاس ملازم تھے اس کے مالک کو بھی طلب کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس: خواجہ آصف کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع

وکیل کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف کی دبئی کی ایک کمپنی میں پارٹنر شپ ہے، ان کے ذاتی اکاؤنٹس میں ایک مرتبہ 2 کروڑ اور دیگر مواقع پر بھی پیسے جمع ہوئے۔

نیب وکیل نے مزید کہا کہ جس نے پیسے جمع کرائے اس کا کہنا ہے کہ یہ خواجہ آصف کے ہی پیسے تھے جس پر خواجہ آصف کا کہنا تھا میں تسلیم کر رہا ہوں یہ پیسے میرے ہی تھے۔

2010 وکیل نے کہا کہ 2010 سے 2017 تک خواجہ آصف نے مختلف کمپنیز میں سرمایہ کاری کی، ایک کروڑ روپے کی ٹی ٹیز ان کے اکاؤنٹ میں آئیں، ان کے پاس رقم کہاں سے آئی اس بارے میں تفتیش کرنی ہے۔

جج نے نیب وکیل سے استفسار کیا کہ بیرون ملک ملازمت بارے میں نیب نے خواجہ سے کیا تفتیش کی تو ووکیل نے بتایا کہ کمپنی کے مالک کو طلب کیا تھا۔

وکیل نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ نیب کو خواجہ آصف سے مزید تفتیش کے لیے 15 روز کے جسمانی ریمانڈ کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس: خواجہ آصف کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

بعدازاں خواجہ آصف کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے کہا کہ نیب تفتیش مکمل کر چکا ہے، سارا ریکارڈ پہلے ہی نیب کے پاس ہے جبکہ سپریم کورٹ بیرون ملک ملازمت کے حوالے سے خواجہ آصف کو کلیر کر چکی ہے۔

سپریم کورٹ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عثمان ڈار نے خواجہ آصف کے کاغذات نامزدگی کو چیلنج کیا تھا، کیس سپریم کورٹ تک گیا اور سپریم کورٹ نے انہیں کلئیر کیا، خواجہ آصف تسلیم کرتے ہیں کہ وہ بیرون ملک کمپنی میں ملازم تھے۔

اس موقع پر وکیل نے مطالبہ کیا کہ نیب والے لکھ کر دے دیں انہوں نے خواجہ آصف سے اب کیا تحقیقات کرنی ہیں۔

وکیل کا کہنا تھا کہ نیب راولپنڈی نے خواجہ آصف کو 5 نوٹسز جاری کیے اور خواجہ آصف نے جوابات دیے، راولپنڈی کے بعد یہ کیس نیب لاہور کو منتقل کر دیا گیا۔

اس پر جج نے نیب کے وکیل سے دریافت کیا کہ اگر خواجہ آصف نیب کو جواب نہیں دیتے تو نیب کیا کر سکتا ہے، نیب والے جوابات لینے کے لیے زبردستی تو نہیں کر سکتے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کو گرفتار کرلیا

جج نے نیب کے تفتیشی افسر سے سوال کیا کہ خواجہ آصف نے انویسٹی گیشن میں مکمل تحریری جواب دے رکھا ہے پھر نیب کو کیوں ریمانڈ چاہیے؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ ایکسپورٹ کے بزنس سے پہلے خواجہ آصف کے اکاؤنٹس میں 10 کروڑ روپے آئے تھے۔

تاہم نیب حکام خواجہ آصف کے جسمانی ریمانڈ لینے سے متعلق عدالت کو مطمئن نہ کر سکے۔

چنانچہ عدالت نے خواجہ آصف کے جسمانی ریمانڈ کی نیب کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 4 فروری تک کے لیے عدالتی ریمانڈ پر بھیجنے کا حکم دے دیا۔

خواجہ آصف کی گرفتاری

مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کو قومی احتساب بیورو نے 29 دسمبر کی رات گرفتار کیا تھا اور اگلے ہی روز راولپنڈی کی احتساب عدالت میں پیش کر کے ان کا ایک روزہ راہداری ریمانڈ حاصل کرنے کے بعد انہیں نیب لاہور منتقل کردیا تھا۔

نیب کی جانب سے جاری کردہ خواجہ آصف کی تفصیلی چارج شیٹ کے مطابق وہ نیب آرڈیننس 1999 کی شق 4 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 کی دفعہ 3 کے تحت رہنما مسلم لیگ (ن) کے خلاف تفتیش کررہے تھے۔

اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ عوامی عہدہ رکھنے سے قبل 1991 میں خواجہ آصف کے مجموعی اثاثہ جات 51 لاکھ روپے پر مشتمل تھے تاہم 2018 تک مختلف عہدوں پر رہنے کے بعد ان کے اثاثہ جات 22 کروڑ 10 لاکھ روپے تک پہنچ گئے جو ان کی ظاہری آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔

مزید پڑھیں:خواجہ آصف نے اپنے قائد کی طرح ٹی ٹی کا طریقہ کار اپنایا، شہزاد اکبر

انہوں نے کہا کہ خواجہ آصف نے یو اے ای کی ایک فرم بنام M/S IMECO میں ملازمت سے 13 کروڑ روپے حاصل کرنے کا دعوی کیا تاہم دوران تفتیش وہ بطور تنخواہ اس رقم کے حصول کا کوئی بھی ٹھوس ثبوت پیش نہ کر سکے، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملزم نے جعلی ذرائع آمدن سے اپنی حاصل شدہ رقم کو ثابت کرنا چاہا۔

احتساب کے ادارے کے مطابق ملزم خواجہ آصف اپنے ملازم طارق میر کے نام پر ایک بے نامی کمپنی بنام ’طارق میر اینڈ کمپنی‘ بھی چلا رہے ہیں جس کے بینک اکاؤنٹ میں 40 کروڑ کی خطیر رقم جمع کروائی گئی، اگرچہ اس رقم کے کوئی خاطر خواہ ذرائع بھی ثابت نہیں کیے گئے۔

نیب نے کہا کہ نیب انکوائری کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ کیا خواجہ آصف کی ظاہر کردہ بیرونی آمدن آیا درست ہے یا نہیں اور انکوائری میں ظاہر ہوا کہ مبینہ بیرون ملک ملازمت کے دورانیہ میں ملزم خواجہ آصف پاکستان میں ہی تھے جبکہ بیرون ملک ملازمت کے کاغذات محض جعلی ذرائع آمدن بتانے کے لیے ہی ظاہر کیے گئے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024