کے ای کے معاہدے نہ ہونے کی وجہ سے کراچی میں بجلی کی صورتحال غیر یقینی
کراچی: کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مونس علوی نے کہا ہے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کے ساتھ گیس سپلائی کے معاہدے (جی ایس اے) کی عدم موجودگی اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈیسپچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدے (پی پی اے) کی میعاد ختم ہونے پر شہر کو بجلی کی فراہمی غیر یقینی صورتحال کو بڑھاوا دے رہی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پریس کانفرنس کے دوران سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہاں وفاقی حکومت جی ایس اے اور پی پی اے کے معاملات کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت سے پوری طرح واقف ہے وہیں اس سلسلے میں حتمی فیصلے ابھی باقی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'یہ مسائل کراچی میں طلب و رسد کے فرق کو مستقل طور پر حل کرنے میں رکاوٹ ہیں'۔
مزید پڑھیں: کے الیکٹرک کو اضافی بجلی، گیس کی فراہمی کے قانونی تقاضے تعطل کا شکار
کے ای کے ایس ایس جی سی کو قابل ادائیگیوں کے معاملے کو جی ایس اے کو حتمی شکل دینے میں تاخیر سے مربوط کرتے ہوئے کے ای کے چیف فنانشل آفیسر عامر غازیانی نے واضح طور پر بتایا کہ کے الیکٹرک پر ایس ایس جی سی کے اصولی طور پر صرف 13 ارب 70 کروڑ روپے واجب الادا ہیں اور ایس ایس جی سی کی جانب سے مارک اپ کی طلب کا معاملہ ناانصافی پر مبنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'کے الیکٹرک کے قابل وصول اور قابل ادا کو ایک جامع بنیاد پر دیکھا جانا چاہیے اور اسے ختم ہونا چاہیے کیونکہ دونوں کا تعلق سرکاری اداروں سے ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'اگر صرف اصولی رقم دیکھی جائے، جو کے ای کے لیے قابل وصول اور واجب الادا ہے، تو کے ای 80 ارب وصول کرے گا'۔
مونس علوی نے بتایا کہ کے ای کا فلیگ شپ 900 میگاواٹ پاور پلانٹ، بی کیو پی ایس 3 تیزی سے تعمیر ہو رہا ہے اور 450 میگاواٹ کے پہلے یونٹ کے لیے گیس ٹربائن، جنریٹر اور ہیٹ ریکوری بوائلر بجلی کی یوٹیلیٹی کے بن قاسم پاور کمپلیکس پہنچ چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ای سی سی نے کراچی کیلئے بجلی کے نرخوں میں اضافے کی منظوری دے دی
ان کا کہنا تھا کہ 'پہلے یونٹ کے لیے اسٹیم ٹربائن اور ٹرانسفارمر سائٹ کے راستے پر ہیں، تمام متعلقہ سول کام تیزی سے انسٹالیشن کے لیے آگے بڑھ رہا ہے اور ہدف ہے کہ 2021 کے موسم گرما میں پہلا یونٹ تیار ہوجائے گا اور سال کے آخر تک 450 میگاواٹ کا دوسرا یونٹ تیار کرلیا جائے گا'۔
انہوں نے کہا کہ آر ایل این جی پر مبنی پاور پلانٹ کراچی کی بجلی کی طلب کو پورا کرنے اور اس کی صنعتوں کو قومی معیشت میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کے لیے کافی حد تک مدد فراہم کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بھی حال ہی میں کے ای کے جنریشن لائسنس میں ترمیم کی منظوری دی ہے جس میں 900 میگا واٹ سے چلنے والی پی کیو پی ایس 3 سے کے ای کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیا گیا ہے۔
مونس علوی نے کہا کہ بی کیو پی ایس 3 کے نتیجے میں فرنس آئل پاور پلانٹس کے مقابلے میں حکومت کے لیے درآمدی اخراجات کم ہوں گے، صارفین کے لیے سستی بجلی پیدا ہوگی اور کاربن کا اخراج بھی بہت کم ہوگا۔
مزید پڑھیں: گیس پریشر کا مسئلہ حل نہ ہوا تو گرمیوں میں بجلی کی بندش کا سامنا رہے گا، کے الیکٹرک
انہوں نے مزید کہا کہ 'مجھے یقین ہے کہ ہمیں حکومت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی حمایت حاصل رہے گی کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئندہ 900 میگاواٹ کا آر ایل این جی پاور پلانٹ کراچی کے لیے بہت ضروری ہے'۔
حکومتی وعدوں کی تکمیل طلب
کے ای سربراہ نے کہا کہ جہاں 900 میگاواٹ کے پلانٹ کی منظوری کراچی کے بڑھتے ہوئے بجلی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ایک اہم عنصر ہے وہیں اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے دیگر وعدوں کو بھی بروقت پورا کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) کے ساتھ بی کیو پی ایس 3 کے لیے 150 ملی میٹر فی گھنٹہ کی گیس کی فراہمی کے معاہدوں پر دستخط ہوچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاور یوٹیلیٹی نے آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے گیس پائپ لائن کی تعمیر اور چلانے کے لائسنس کے لیے کے ای کی درخواست کو منظور کرنے کے فیصلے کو سراہا ہے جو بی کیو پی ایس 3 پلانٹ کے لیے آر ایل این جی فراہم کرے گا۔