اورنج لائن عوامی خدمت کا ایک منصوبہ یا ایک ’سفید ہاتھی‘؟
لاہور میں اورنج لائن میٹرو ٹرین کو تعمیر کرنے اور چلانے میں 6 سال لگے۔ اس پورے عرصے ایک کروڑ سے زائد کی آبادی پر مشتمل یہ شہر دھول اور ٹریفک جام کے عذاب میں مبتلا رہا ہے، لیکن اس کے بہت سے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ’چین کا یہ تحفہ‘ ان تمام مصائب کا صلہ ہے۔ اس منصوبے نے گزشتہ سال اکتوبر میں آپریشن شروع کیا تھا۔
21 سالہ سلیمان احمد نے ماس ٹرانزٹ سسٹم کے فوائد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سے ٹریفک میں کمی آئے گی، ساتھ ساتھ ایندھن اور وقت کی بچت ہوگی‘۔
صبح سویرے موٹرسائیکل پر انہیں گلشنِ راوی میں واقع اپنے گھر سے جوہر ٹاؤن میں یونیورسٹی کیمپس تک پہنچنے میں 40 منٹ لگتے تھے لیکن گھر واپسی کا سفر ٹریفک جام کی وجہ سے 2 گھنٹہ طویل ہوجاتا تھا۔
لیکن پورے ملک میں کورونا کی دوسری لہر اور اس کے نتیجہ میں تعلیمی اداروں کو جنوری تک بند رکھنے سے اب ٹرین کے ذریعے سلیمان کا نیا سفر رک گیا ہے۔ اگرچہ اسٹیشنوں میں داخل ہونے کے لیے ماسک پہننا لازمی ہے، لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ ’کم ہی لوگ گاڑی کے اندر بھی یہ احتیاط اپناتے ہیں‘۔
ایک ماحول دوست شہری مستقبل
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے ایک حصے کے طور پر بنائی گئی، ایک ارب 60 کروڑ امریکی ڈالر لاگت کی اورنج لائن ٹرین لاہور میں بننے والی 3 میٹرو لائنز منصوبوں میں سے پہلا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو پاکستان کے دوسرے بڑے شہر میں ایک دن میں تقریباً ڈھائی لاکھ افراد کی سہولت کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ ان بہت سے ریل اور میٹرو پروجیکٹس میں سے ایک ہے جو چین دنیا بھر میں فنانس کررہا ہے۔
شہری ترقی پر بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے اثرات پر ایک تجزیے کے مطابق اس کا مقصد پبلک ٹرانسپورٹ کی شدید کمی اور مضر صحت اسموگ سے دوچار شہر میں ’ٹریفک کے دباؤ، ہوا کی آلودگی، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج اور شور‘ کو کم کرنا ہے اور سی پیک اس کا ایک کلیدی حصہ ہے۔
اسلام آباد میں سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ تھنک ٹینک کےانوائرنمنٹ اینڈ کلائمیٹ چینج پروگرام کے سربراہ عمران خالد نے نشاندہی کی کہ ’پاکستان میں ہوا کے ناقص معیار کی ایک اہم وجہ گاڑیوں سے خارج ہونے والی آلودگی ہے جو ایندھن کے معیار کے ساتھ ساتھ سڑک پر گاڑیوں کی قسم اور تعداد کا نتیجہ ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ الیکٹرک اورنج لائن ٹرین ’آلودگی کو روکنے میں بہت کارآمد ثابت ہوسکتی ہے، لیکن اسی صورت جب اس سے لوگوں کا ناکارہ اور آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں خصوصاً 2 اسٹروک آٹو رکشہ اور موٹر سائیکلوں پر انحصار کم ہوجائے۔
دہلی میٹرو پر مبنی اعداد و شمار کے مطابق اورنج لائن سڑک سے 380 بسیں ہٹانے میں بھی مدد کرے گی جس سے بسوں کے کل بیڑے کو تقریباً 3 ہزار 7 سو 70 تک لایا جاسکے گا اور کاربن کے اخراج کو ایک سال میں ایک لاکھ 45 ہزار ٹن سے بھی کم کیا جاسکے گا۔
میٹرو فی گھنٹہ 35 کلومیٹر کی رفتار سے 27 کلومیٹر سفر کرتی ہے جس سے شہر میں 2 گھنٹے کا سفر 45 منٹ تک کم ہوجاتا ہے۔ پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے جنرل منیجر محمد عزیر شاہ نے کہا کہ ’دسمبر 2020ء تک یہ ٹرین موجودہ میٹرو بس سسٹم کی طرح صبح 06:15 سے رات 10 بجے تک چلائی جائے گی‘۔
یہ پورے شہر میں 26 اسٹیشنوں پر رکتی ہے جن میں زیرِ زمین تقریباً پونے 2 کلومیٹر کے علاوہ تقریباً تمام ہی راستہ پل پر مبنی ہے۔
طویل مدّتی منصوبے
عزیر شاہ نے کہا کہ لاہور کے لیے میٹرو ٹرین کا خیال تقریباً 3 دہائیوں سے موجود تھا لیکن ’حکومتوں میں تبدیلی، فنڈز کی کمی اور قرض کے معاہدوں پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے اس کی تکمیل ممکن نہیں ہوسکی تھی‘۔
اس پروجیکٹ کو تب حقیقت بننا نصیب ہوا جب چین کے ایکسیم بینک نے اس شرط پر قرض میں توسیع کرنے پر اتفاق کیا کہ چینی انٹرپرائز چینی آلات استعمال کرکے اس منصوبے پر عملدرآمد کریں گی۔
چینی ریلوے کا تعمیر کردہ یہ منصوبہ چین کی انجینئرنگ فرم نورینکو انٹرنیشنل، گوانگجو میٹرو گروپ اور ڈایوو پاکستان پر مشتمل کنسورشیم کے تحت 8 سال تک چلایا جائے گا۔
یہ منصوبہ تنازعات کا شکار کیوں رہا؟
یہ منصوبہ ابتدا سے ہی تنازعات کا شکار رہا ہے۔ 2016ء میں لاہور کی ایک عدالت نے اس کی تعمیر معطل کردی تھی کیونکہ اس سے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کو خطرہ تھا تاہم سپریم کورٹ آف پاکستان نے بعد میں فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
کامل خان ممتاز، جو لاہور کے ایک معمار ہیں، کہتے ہیں کہ عمارتیں اور ایسی جگہیں جو ’لاہور کی پہچان، اس کی تاریخ، اس کا ورثہ اور اس کی ثقافت تھیں‘ انہیں ریزہ ریزہ کردیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’کئی محلے، جیسے پرانا انارکلی، جہاں لوگ رہتے تھے اور نسل در نسل کام کرتے تھے، اب وہ ناگا ساکی کی طرح نظر آتے ہیں‘۔ انہوں نے ’تاریخی یادگاروں کے تقدس کی صریحاً خلاف ورزی‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے ایک ’مجرمانہ فعل‘ قرار دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس منصوبے نے لوگوں کو گھروں سے بے دخل کردیا۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق 200 سے زائد خاندان بے گھر ہوگئے، نیز ان میں پسماندہ بچوں کا ایک ادارہ، دکانیں اور کچی آبادی بھی شامل ہیں۔ ان کو معاوضے کے طور پر 20 ارب روپے (سوا کروڑ امریکی ڈالر) کا ’تاریخی پیکیج‘ دیا گیا۔
اس قیمت کے علاوہ کامل فکرمند ہیں کہ ’ہمارے جیسا غریب ملک اس آسائش کی قیمت کیسے ادا کرے گا‘۔ ان کا تخمینہ ہے کہ پنجاب حکومت سبسڈی کی مد میں’تقریباً ساڑھے 7 کروڑ روپے (تقریباً ساڑھے 4 لاکھ امریکی ڈالر) یومیہ ادا کرے گی‘۔
انہوں نے ٹرین لائن کو نجی آپریٹر کو فروخت کرنے اور اس کے بجائے بسیں خریدنے کا مشورہ دیا کیونکہ ’لاہور میں بسیں چلانے کے لیے ایک اچھا روڈ نیٹ ورک موجود ہے‘۔
عمرینا ٹیوانہ بھی ایک معمار ہیں۔ یہ مانتے ہوئے کہ لاہور کو دہلی میٹرو کی طرح ’اسمارٹ گرین ٹرانزٹ سسٹم‘ کی ضرورت ہے، ان کا کہنا ہے کہ اورنج لائن ’بالکل ناقابلِ قبول‘ رہی کیونکہ یہ ’قانون کی خلاف ورزی‘ ہے اور ایک تاریخی شہر کے لیے بالکل مناسب نہیں جہاں مغل دور کا ’روثہ‘ موجود ہے۔ انہوں نے اسے ’ایک سفید ہاتھی‘ قرار دیا ہے جسے لاہور کی آبادی کا صرف ایک فیصد حصہ استعمال کرے گا۔
درحقیقت، اس وقت لاہور کی صرف 0.6 فیصد آبادی (62 ہزار افراد) ٹرین کا استعمال کرتی ہے، یعنی ٹرینوں کی صرف 24 فیصد گنجائش استعمال ہورہی ہے۔
مہنگی سواری
پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے عزیر شاہ کا کہنا ہے کہ اس کا ایک ٹکٹ 40 روپے (0.25 امریکی ڈالر) کا ہوگا اور یہ ٹکٹ کی قیمت ہی ہے جو لوگوں کو لاہور میں پبلک ریل کے استعمال سے روک دے گی۔
200 میٹرو فیڈر بسیں بھی ناکافی ہیں، حالانکہ جلد ہی مزید 400 بسیں اس میں شامل ہونی ہیں۔ اس دوران موٹرسائیکل رکشہ والے یہ کام انجام دے رہے ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ ٹرین ان موٹرسائیکل رکشوں سے مہنگی تو ہے (جن کی قیمت 10 سے 20 روپے یا 0.06-0.12 امریکی ڈالر ہے)، لیکن اس کا یہ فائدہ ضرور ہے کہ یہ نقل و حمل کے دوسرے ذرائع جیسے ٹیکسیوں سے تیز اور سستی ہے۔
سلیمان احمد کے ماہانہ سفر کے اخراجات کم ہوکر تقریباً نصف ہوگئے ہیں۔ موٹرسائیکل کے ذریعے جب وہ کیمپس جاتے تھے تو ان کے تقریباً 5 ہزار روپے (30 امریکی ڈالر) خرچ ہوجاتے تھے، جو اب میٹرو اور رکشہ سے سفر کرتے ہوئے 2 ہزار 700 روپے (17 امریکی ڈالر) تک پہنچ گئے ہیں۔
نازیہ اجمل جو ایک دوا ساز کمپنی میں ملازمت کرتی ہیں، کہتی ہیں کہ ٹرین ’کم خرچ‘ ہے۔ انہوں نے ٹیکسی کا استعمال ختم کردیا ہے جس پر ماہانہ 20 ہزار روپے (128 امریکی ڈالر) خرچ آتا تھا۔ اب ناصرف سفر کا وقت کم ہوکر 35 منٹ تک پہنچ گیا ہے، بلکہ خرچ بھی نصف ہوگیا ہے۔
روزگار
عزیر شاہ کے مطابق اورنج لائن نے اپنے آپریشن اور دیکھ بھال کے لیے تقریباً 4 ہزار ملازمتیں پیدا کیں اور اس کی تعمیر کے دوران ساڑھے 7 ہزار سے زیادہ مزدور ملازم تھے۔
لیکن مزدور حقوق کے کارکنان موجودہ معاہدے کے نظام سے نالاں ہیں جہاں مزدوروں کے ساتھ کسی فائدے، نوکری کے تحفظ یا حفاظت کی ضمانت کے بغیر معاہدہ کیا جاتا ہے۔
لیبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن (ایل ای ایف) کے ڈائریکٹر خالد محمود نے کہا کہ ’جب بجٹ میں کٹوتی شروع ہوتی ہے تو پاکستانی مزدوروں کو سب سے پہلے ملازمت سے فارغ کیا جاتا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم نے میٹرو بس سسٹم کے ساتھ بھی یہی دیکھا تھا‘۔
2017ء میں اورنج لائن کے 7 مزدور اپنے عارضی گھر میں آگ لگنے سے ہلاک ہوگئے تھے۔ ایل ای ایف کو ’خوفناک صورتحال کا پتہ چلا جس میں وہ کام کرتے اور رہتے تھے، ان کے لیے حفاظتی اقدامات کی بھی کمی تھی‘۔ گزشتہ سال اورنج لائن کے 7 مزدور دیوار گرنے سے ہلاک ہوگئے تھے۔ خالد محمود نے کہا کہ پچھلے 6 سالوں میں 50 سے زیادہ مزدور فوت ہوچکے ہیں۔
وہ اس منصوبے پر غالب شفافیت اور رازداری کے فقدان سے بھی نالاں تھے۔ وہاں کتنے چینی مزدور ملازم ہیں یا ان کی تنخواہ کتنی ہیں اس بارے میں کوئی عوامی معلومات نہیں ہیں۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول پر شائع ہوا، جسے بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں