نیب نے آفتاب شیر پاؤ کی 'مشکوک' ٹرانزیکشنز، برطانیہ کے ثالثی قوانین کو نظرانداز کیا
اسلام آباد: وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر کی جانب سے جاری برطانوی ثالثی کے فیصلے میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیر داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے سابق فوجی حکمران کی کابینہ میں شامل ہونے کے بعد 'مشکوک' ٹرانزیکشنز کو کس طرح نظرانداز کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لندن میں مقیم ایک ثالث، سر انتھونی ایونز نے براڈشیٹ کے اس دعوے کے حق میں فیصلہ دیا کہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ سے بازیابی میں غیر معمولی تاخیر ہوئی اور انہیں 35 لاکھ ڈالر کی بحفاظت بازیابی کا کافی موقع ملا تھا۔
فیصلے کے مطابق جولائی 2002 میں براڈشیٹ نے نیب کو آگاہ کیا تھا کہ اس نے آفتاب شیر پاؤ کے جرسی میں ایک بینک اکاؤنٹ میں اثاثوں کا سراغ لگالیا ہے۔
مزید پڑھیں: براڈ شیٹ معاملے میں کی گئی ادائیگی، ماضی کی ڈیلز کی قیمت ہے، شہزاد اکبر
براڈشیٹ برطانیہ میں قائم اثاثوں کی بازیابی کا ادارہ ہے۔
یہ اکاؤنٹ ایک ٹرسٹ کے نام پر تھا جس کی ملکیت اور/یا اس کا کنٹرول آفتاب شیر پاؤ کے پاس تھا اور اس میں مجموعی طور پر 35 لاکھ ڈالر رکھے گئے تھے۔
براڈشیٹ نے نیب سے اپنے دعووں کے سلسلے میں جرسی کے حکام سے منجمد کرنے کے لیے باضابطہ درخواست کرنے کو کہا کہ ایک عارضی طور پر منجمد کرنے کا حکم نافذ کیا جائے۔
20 ستمبر 2003 کو جرسی میں کراؤن ایڈووکیٹ نے 'شیر پاؤ کے معاملے کی اپڈیٹ' طلب کی۔
اس سے پہلے کہ وہ یہ فراہم کرسکتے براڈشیٹ کو اثاثوں کی بازیابی کے معاہدے (اے آر اے) کو ختم کرنے کے لیے 28 اکتوبر 2003 کو نیب کے وکلا کا خط موصول ہوا۔
30 جنوری 2004 کو جرسی کی حکومت کے لیے کام کرنے والے وکیل نے براہ راست نیب کو خط لکھا اور آفتاب شیر پاؤ کے خلاف جاری کسی بھی طرح کے قانونی چارہ جوئی کے بارے میں تفصیلی معلومات طلب کی۔
جرح کے دوران ایک گواہ طلعت گھمن نے انکشاف کیا کہ نیب کے چیئرمین جنرل امجد حفیظ اور آفتاب شیر پاؤ کے درمیان ملاقات میں جرسی کے خط پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
طلعت گھمن نے شواہد کے ساتھ کہا کہ آفتاب شیر پاؤ کے پاس 'ہماری پوچھ گچھ کا کوئی جواب نہیں ہے'۔
آفتاب شیر پاؤ کم از کم اگست 2004 تک اے آر اے کے لیے نیب کے زیر تفتیش اور اس کے نشانے پر رہے، 25 اگست 2004 کو آفتاب شیر پاؤ کو وزیر داخلہ مقرر کیا گیا تھا۔
نومبر 2006 میں نیب نے آفتاب شیر پاؤ کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کیا جس میں انہوں نے 'کرپشن' کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
اگست 2007 میں آفتاب شیر پاؤ نے جرسی میں بینک اکاؤنٹس سمیت غیر ملکی اثاثوں کے بارے میں نیب کو ریٹرنز جمع کروائے، جس میں کہا گیا تھا کہ تمام رقم 'زرعی آمدنی کے ذریعے حاصل کی گئی ہے جس پر میں باقاعدہ انکم ٹیکس ادا کرتا ہوں' اور یہ دعویٰ کیا کہ فنڈز جرسی کو پورٹ فولیو سرمایہ کاری' لندن اور سوئٹزرلینڈ کے ذریعے سے بھیجے گئے ہیں۔
اکتوبر 2007 میں حکومت پاکستان نے قومی مفاہمت کا آرڈیننس جاری کیا۔
یہ بھی پڑھیں: برطانوی جج کی براڈ شیٹ فیصلے میں نیب کی سرزنش
اکتوبر 2008 میں نیب نے ایک کھلا خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ آفتاب شیر پاؤ کے خلاف 'اس بیورو میں' کوئی مقدمہ زیر سماعت نہیں ہے۔
تاہم جنوری 2010 میں نیب کے ڈائریکٹر جنرل نے آفتاب شیر پاؤ کے اکتوبر 2000 میں درج ہونے والے ریفرنس پر تحقیقات کی منظوری دی تھی۔
15 اگست 2015 کو نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے اپنے پروسیکیوشن ڈویژن کی سفارش کے خلاف آفتاب شیر پاؤ کے اثاثوں کی تحقیقات بند کردی تھیں اور کہا تھا کہ اطلاع دی گئی 'تفتیش نامکمل اور عیب دار ہے، اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر بند نہیں کیا جاسکتا ہے'۔
دعویدار کا الزام ہے کہ اگر اے آر اے جاری رہتا، نیب جرسی کے اکاؤنٹ میں رکھی گئی رقم 35 لاکھ روپے کی وصولی کرتا اور براڈشیٹ کو اس کی رقم 20 فیصد 7 لاکھ روپے دینے کا پابند ہوتا۔
سر انتھونی ایونز نے مشاہدہ کیا کہ اس بارے میں کوئی واضح وضاحت موجود نہیں ہے کہ نیب 03-2002 میں یا تو ریکوری کرنے میں کارروائی کرنے میں کیوں ناکام رہا جب براڈشیٹ نے اسے بینک اکاؤنٹ کے بارے میں آگاہ کیا یا جنوری 2004 میں جب حکومت کے وکیل نے خط کے جواب میں انہیں ایسا کرنے کی دعوت بھی دی تھی تو۔
انہوں نے نوٹ کیا کہ نیب کی جانب سے ناکافی شواہد ہونے کی استدعا گواہ کی گواہی سے متصادم ہے کہ 'شیر پاؤ کے پاس ان کے سوالات کا کوئی جواب نہیں ہے اور وہ اس سے اثاثوں کی وصولی کے قریب ہیں'۔