مدافعتی نظام کم از کم 6 ماہ تک کورونا وائرس کو 'یاد' رکھتا ہے، تحقیق
نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کو شکست دینے والے بیشتر افراد میں اس کے دوبارہ شکار ہونے کا خطرہ کم از کم 6 ماہ تک نہیں ہوتا۔
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
امریکا اور سوئٹزر لینڈ کے ماہرین کی مشترکہ تحقیق میں ایسے متعدد افراد کو شامل کیا گیا تھا جو کووڈ 19 کو شکست دے چکے تھے اور دریافت کیا کہ وقت کے ساتھ وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح گھٹ جاتی ہے، مگر بیماری کو پہچاننے والے مخصوص میموری بی سیلز کی سطح مستحکم رہتی ہے۔
تحقیق میں بتایا کہ یہ خلیات جراثیم کو یاد رکھتے ہیں اور اس کا دوبارہ سامنا ہونے پر مدافعتی نظام کو وائرس سے لڑنے والی اینٹی باڈیز بننے کو متحرک کرتے ہیں۔
طبی جریدے جرنل نیچر میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ ان خلیات کا ردعمل کووڈ کی ری انفیکشن سے تحفظ فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے اور مؤثر ویکسینیشن کے لیے ضروری ہے۔
تحقیق میں مزید کہا گیا کہ میموری بی سیلز کے افعال میں 6 ماہ میں کمی نہیں آتی بلکہ اس کے ارتقا کا سلسلہ جاری رہتا ہے، جس سے ٹھوس عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 کے شکار ہونے والے افراد میں اس وائرس کا دوبارہ سامنا کرنے پر برق رفتار اور مؤثر ردعمل پیدا ہوتا ہے۔
تحقیق کے لیے ایسے افراد کا تجزیہ کیا گیا تھا جن کو کووڈ کو شکست دیئے ہوئے 6 ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا تھا۔
محققین نے دریافت کیا کہ وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں وقت کے ساتھ کمی آتی ہے مگر میموری بی سیلز کی مقدار میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔
محققین نے بتایا کہ تحقیق سے عندیہ ملتا ہےک ہ کورونا وائرس کے خلاف میموری بی سیلز کا ردعمل 6 ماہ کے دوران ارتقائی مرحال سے گزرتا ہے، کیونکہ بیماری کے بعد وائرل پروٹین کے ذرات جسم میں موجود ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں وائرس کا دوبارہ سامنا ہونے پر وہ اینٹی باڈیز بننے کے عمل کو متحرک کرتا ہے۔
اس سے قبل سابقہ تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ کورونا وائرس کے مریضوں میں صحتیابی کے بعد اسے ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح بہت تیزی سے کم ہوتی ہے۔
مگر حالیہ تحقیقی رپورٹس میں وائرس کے خلاف طویل المعیاد مدافعت کے حوالے سے مدافعتی نظام کے دیگر حصوں کے کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
جنوری 2021 میں جریدے سائنس میں شائع ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ مدافعتی نظام کے لگ بھگ تمام مرکزی حصے وائرس کو شناخت کرنا سیکھتے ہیں اور وائرس کے نئے مسئلے کے خلاف ردعمل کم از کم 8 ماہ تک برقرار رہتا ہے۔
اس تحقیق میں شامل محقق شین کروٹی نے بتایا کہ کووڈ کے خلاف مدافعتی نظام کی مدافعت اس سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں ممکنہ طور پر کئی برس تک برقرار رہ کر انہیں کووڈ سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔
اس تحقیق میں امریکا سے تعلق رکھنے والے کووڈ 19 کے 188 مریضوں کے 254 خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا، جن میں اس بیماری کی شدت مختلف تھی یعنی بغیر علامات، معمولی، معتدل اور سنگین۔
ان میں سے بیشتر میں کووڈ 19 کی شدت معمولی تھی اور 93 فیصد کو کبھی ہسپتال داخل نہیں ہونا پڑا۔
محققین نے ایسے 43 نمونے بھی دیکھے جو علامات کے آغاز کے 6 ماہ بعد لیے گئے تھے۔
انہوں نے دریافت کیا گیا کہ وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح بیماری کے بعد ایک سے 8 ماہ تک مستحکم رہتی ہیں، وقت کے ساتھ ان کی سطح میں بتدریج کمی آتی ہے، مگر بظاہر وہ پائیدار ہوسکتی ہیں۔
میموری ٹی سیلز کو ایسے اینٹی جنز کے طور پر جانا جاتا ہے جو کسی مخصوص وائرس کے خلاف مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتے ہیں، جو بیماری کے بعد ایک ماہ کے اندر ظاہر ہوتے ہیں اور 4 سے 6 ماہ تک ان کی سطح میں کمی آنے لگتی ہیں، مگر کسی حد تک برقرار رہتےہ یں۔
مخصوص مددگار ٹی سیلز وائرس ناکارہ بنانے والی اور طویل عرصے تک بیماری کے خلاف تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کو بنانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں، جو تحقیق میں شامل لگ بھگ تمام نمونوں میں دریافت ہوئی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں میں اینٹی باڈیز اورمیموری بی سیلز کی سطح زیادہ دیکھی گئی، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار افراد میں طویل المعیاد مدافعت پیدا ہوسکتی ہے۔
مجموعی طور پر 64 فیصد کیسز میں پانچوں مدافعتی ردعمل کو دریافت کیا گیا جو بیماری کے بعد ایک یا 2 ماہ کے اندر بنتا ہے، جبکہ 5 سے 8 ماہ بعد 43 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔
تاہم 95 فیصد مریضوں میں 5 میں سے 3 مدافعتی خلیات موجود ہوتے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ اگرچہ دنیا میں کورونا وائرس سے دوبارہ متاثر ہونے کے چند کیسز سامنے آئے ہیں، مگر وہ بغیر علامات والے یا معمولی بیمار افراد میں نظر آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بیشتر مریضوں میں کووڈ 19 سے دوبارہ تحفظ فراہم کرنے والا پائیدار مدافعتی ردعمل کا امکان ہے۔