نقیب کیس میں راؤ انوار کو بری کرنے کی پوری تیاری ہوچکی ہے، جبران ناصر
نقیب اللہ قتل کیس کے وکیل و معروف سماجی کارکن جبران ناصر کا کہنا ہے کہ کیس سے ریاست، پراسیکیوشن اور پولیس کی جانب سے راؤ انوار کو بری کرنے کی پوری تیاری ہوچکی ہے۔
کراچی پریس کلب میں نقیب اللہ محسود کی تیسری برسی کے موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے جبران ناصر نے کہا کہ 'جنوری 2018 میں نقیب اللہ محسود سمیت 4 نوجوانوں کو قتل کیا گیا، کیس میں 30 ملزمان نامزد ہیں جن میں سے ایس ایس پی راؤ انوار سمیت 5 ملزمان ضمانت پر رہا ہیں، 18 ملزمان کی ضمانت کی درخواستیں خارج ہوئیں اور وہ جیل میں ہیں جبکہ 7 ملزمان تاحال مفرور ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'یہ خبریں قتل کے واقعے کے پہلے سال میں ہی سامنے آگئی تھیں کہ پولیس کے دو گواہان اپنے بیانات سے منحرف ہورہے ہیں، اب 5 ملزمان ایسے ہیں جو اپنے بیانات سے منحرف ہوچکے ہیں، ان گواہان کی بنیاد پر پورا کیس کھڑا کیا گیا تھا اور اگر وہ اپنے بیانات سے منحرف ہوئے تو سندھ پولیس نے ان کے خلاف ڈسپلنری کارروائی کے بغیر انہیں من پسند پوسٹوں اور تھانوں سے نواز دیا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اس کیس کے نتیجے میں ہمیں نظر آرہا ہے کہ ریاست، پراسیکیوشن اور پولیس کی جانب سے راؤ انوار کو بری کرنے کی پوری تیاری ہوچکی ہے، راؤ انوار اگر اس کیس سے بری ہوگیا تو حکومت کا اسے عملی طور پر 444 انکاؤنٹرز سے بری کرنے کا ارادہ ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: ایک اور گواہ نے راؤ انوار کے خلاف اپنا بیان واپس لے لیا
جبران ناصر نے کہا کہ 'جس پولیس افسر نے ابتدائی انکوائری رپورٹ بنائی تھی، جس کے بعد معاملہ ازخود نوٹس کی طرف گیا اور سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بنائی، اس افسر کا نام ثنااللہ عباسی ہے، کیا وہ کوئی نااہل، بے ایمان اور ذاتی دشمنی کے لیے پولیس افسران کو پھنسانے والے افسر ہیں؟ اگر ایسا ہے تو انہیں پہلے گلگت بلتستان اور پھر خیبر پختونخوا کا آئی جی کیوں بنایا گیا؟'
انہوں نے کہا کہ اگر راؤ انوار کو بری کیا گیا تو یہ پوری ریاست کی ناکام ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'دو سابق وزرائے اعظم، قومی اسمبلی میں موجودہ قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنماؤں کو گرفتار کرکے جیلوں میں بھیج دیا گیا، لیکن راؤ انوار کو کبھی گرفتار نہیں کیا گیا جس کے بعد ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ تمام انتظامیہ، راؤ انوار کے سامنے کمزور ہے'۔
کیس کے وکیل نے کہا کہ انہوں نے راؤ انوار کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کے آغاز کے لیے نیب میں درخواست جمع کرائی، ایک سال بعد احتساب کے ادارے نے مزید شواہد مانگے جو انہوں نے فراہم کیے لیکن اب تک تحقیقات کا آغاز نہیں ہوا۔
انہوں نے حکومت سندھ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس نے راؤ انوار کے خلاف کبھی نہیں بولا بلکہ ان کے وزرا نے شکارپور میں چند پولیس رپورٹس کی بنا پر ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان احمد کے خلاف پریس کانفرنس کی، جو نقیب کیس کے تفتیشی افسر تھے، جبکہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے راؤ انوار کو 'بہادر بچہ' کہا۔
مزید پڑھیں: نقیب اللہ کیس کے دو اہم گواہ اپنے بیان سے منحرف
اس موقع پر مقتول نقیب اللہ محسود کے چھوٹے بھائی عالم شیر محسود نے کہا کہ 'چیف جسٹس آف پاکستان، چیف آف آرمی اسٹاف، سابقہ و موجودہ وزرائے اعظم اور تمام جماعتوں کے سربراہان نے وعدہ کیا تھا کہ نقیب اللہ محسود کے والدین اور بچوں کو انصاف ملے گا، میرے مرحوم والد اس امید پر دنیا سے رخصت ہوگئے اور اب والدہ، نقیب کی اہلیہ، بچے اور پوری قوم انصاف کے منتظر ہیں'۔
تاہم انہوں نے کہا کہ 'ہم عدالت سے ناامید ہیں، راؤ انوار دہشت گرد تھا اور ہے، میرے والد وفات سے قبل کہتے رہے کہ نقیب صرف میرا نہیں ملک کے 22 کروڑ عوام کا بیٹا ہے، اس کے خون پر سودے بازی ملک کے عوام کی سودے بازی ہوگی'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میں وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ کراچی اور اسلام آباد میں احتجاجی دھرنوں میں بذات خود شریک ہوئے اور آپ نے انصاف کے حصول میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی جس پر ان کے شکر گزار ہیں'۔
عالم شیر نے کہا کہ وفاقی حکومت نے نقیب اللہ محسود کے نام پر ضلع جنوبی وزیرستان میں ان کے آبائی گاؤں میں کالج کے قیام کا اعلان کیا تھا، لیکن اب تک اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا'۔
نقیب اللہ کا قتل
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والا نقیب اللہ محسود ان 4 مشتبہ افراد میں شامل تھا، جنہیں جنوری 2018 میں کراچی میں سابق انکاؤنٹر اسپیشلسٹ ایس ایس پی راؤ انوار اور ان کی ٹیم کی جانب سے عثمان خاصخیلی گوٹھ میں 'جعلی مقابلے' میں مار دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ کا قتل ماورائے عدالت قرار
راؤ انوار کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ مارے گئے افراد کا تعلق کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) سے تھا لیکن اس کالعدم تنظیم کے جنوبی وزیرستان چیپٹر کے ترجمان نے راؤ انوار کے اس دعوے کو 'بے بنیاد' قرار دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ نقیب اللہ کا ان کی کالعدم تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ نقیب اللہ کے اہل خانہ نے بھی سابق ایس ایس پی کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے 27 سالہ بیٹے کا کسی عسکری تنظیم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
نقیب اللہ جن کا شناختی کارڈ پر نام نسیم اللہ تھا ان کے بارے میں ایک رشتے دار نے ڈان کو بتایا تھا کہ نقیب دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا بہت شوق تھا۔
اس تمام معاملے پر عدالت عظمیٰ کے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے ازخود نوٹس بھی لیا گیا تھا جبکہ جنوری 2019 میں کراچی میں انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ اور دیگر 3 لوگوں کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے پولیس انکاؤنٹر میں مارے گئے چاروں افراد کے خلاف درج مقدمات کو خارج کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: ’نقیب اللہ کا قتل راؤ انوار کے اعلان کے 2 گھنٹے بعد کیا گیا‘
بعد ازاں مارچ میں اے ٹی سی نے جعلی انکاؤنٹر میں نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار اور 17 ملزمان پر فرد جرم عائد کی تھی۔
تاہم اس کیس میں راؤ انوار سمیت سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس قمر ضمانت پر ہیں جبکہ دیگر آٹھ ملزمان اس کیس میں جیل میں ہیں، اس کے علاوہ سابق ایس ایچ او امان اللہ مروت اور شعیب شیخ اس کیس میں مفرور ہیں۔