خیبر پختونخوا میں گھریلو تشدد کو جرم قرار دینے کے لیے قانون منظور
پشاور: خیبر پختونخوا اسمبلی میں خواتین کے خلاف گھریلو تشدد سے متعلق طویل عرصے سے التوا کا شکار مجوزہ قانون کو منظور کرلیا گیا جس کے تحت اہلخانہ کے افراد کی جانب سے خواتین سے بدسلوکی کے جرم میں جرمانے کے ساتھ ساتھ ایک سے پانچ سال قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر سماجی و بہبود ہشام انعام اللہ خان نے خیبر پختونخوا میں گھریلو تشدد کے خلاف خواتین (روک تھام اور تحفظ) بل 2021 کو ایوان میں منظوری کے لئے پیش کیا۔
اس بل کے تحت خواتین کے خلاف گھریلو تشدد میں معاشی، نفسیاتی اور جسمانی زیادتیاں شامل ہیں۔
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا واحد صوبہ تھا جہاں گھریلو تشدد سے نمٹنے کے لیے خصوصی قانون نہیں تھا۔
مزید پڑھیں: گھریلو تشدد اور ذہنی تناؤ کا شکار افراد ان ہیلپ لائنز پر مدد حاصل کر سکتے ہیں
اس کے خلاف قانون سازی کا معاملہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے قانون سازوں کی مخالفت کی وجہ سے 8 سالوں سے رکا رہا تھا۔
گھریلو تشدد سے متعلق بل 2012 سے اسمبلی میں زیربحث ہے۔
اس کا پہلا مسودہ 2012 میں پیش کیا گیا تھا جب عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی نے صوبے میں مخلوط حکومت کی تھی۔
اس دستاویز کو پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی آخری مخلوط حکومت کے دوران دوبارہ ڈیزائن کیا گیا تھا اور اسے 2016 میں ایوان میں پیش کیا گیا تھا۔
جماعت اسلامی نے اس بل کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا جس کے مسودے کو اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس بھیجا گیا تھا جس نے اسے غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کردیا تھا۔
2018 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت نے 11 فروری 2019 کو اسمبلی میں یہ بل پیش کیا اور متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے قانون سازوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات پر اسے ایوان کی سلیکٹ کمیٹی کے پاس بھیج دیا گیا۔
کمیٹی نے ایم ایم اے کے اراکین اسمبلی کی طرف سے تجویز کردہ چند ترامیم کو شامل کرنے کے بعد اس مسودے کو منظوری دے دی۔
بل کے سیکشن 3 (1) میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص گھریلو تشدد کے واقعے کے ارتکاب، امداد اور سہولیات فراہم نہیں کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: سینیٹ: خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف بل، جمعے کی چھٹی کیلئے قرارداد پیش
اس نئے قانون میں کہا گیا ہے 'کوئی بھی فرد جو ذیلی دفعہ (1) کے مطابق کسی کام کا ارتکاب کرتا ہے اسے اس ایکٹ کے تحت کسی جرم کا مرتکب سمجھا جائے گا اور وہ پاکستان پینل کوڈ 1860 میں مذکورہ جرم کے لیے جرمانے کے علاوہ ایک سال سے زیادہ اور زیادہ سے زیادہ 5 سال تک کی مدت تک کی قید کی سزا کا پابند ہوگا'۔
قانون کے نفاذ کے بعد حکومت ہر ضلع میں ضلعی تحفظ کمیٹی بنائے گی جس میں ضلع خطیب، ایک ماہر نفسیات اور ماہر امراض چشم سمیت 10 ممبران شامل ہوں گے۔
پی پی پی کی خاتون ایم پی اے نگہت یاسمین اورکزئی نے ایک ترمیم پیش کی جس میں بتایا گیا ہے کہ خاتون ایم پی اے ضلعی تحفظ کمیٹی کی سربراہی کریں۔
ایوان نے متفقہ طور پر اسے منظور کرلیا۔
خیال رہے کہ اصل بل میں تجویز پیش کی گئی تھی کہ ڈپٹی کمشنر کمیٹی کی سربراہی کریں تاہم نئے بل میں کہا گیا ہے کہ 'خواتین ایم پی اے کی غیر موجودگی میں ڈی سی کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کریں گے'۔