ملیریا ویکسین کی تیاری میں نمایاں کامیابی
لندن: علمائے سائنس کے مطابق ایک نئی ملیریا ویکسین نے ابتدائی طبی آزمائشوں ( کلینکل ٹرائلز) میں نہایت پراُمید نتائج ظاہر کئے ہیں۔
امریکہ میں تیار کی جانے والی اس ویکسین کی ذیادہ خوراک جب 15 افراد کو دی گئی تو اس نے 12 افراد کو ملیریا سے محفوظ رکھا ۔
یہ طریقہ غیر روایتی ہے جس میں جسم کے دفاعی نظام کو بیدار کرنے کیلئےملیریا کے زندہ طفیلئے ( پیراسائٹ) کو براہِ راست بدن میں داخل کیا جاتا ہے۔
یہ تحقیق امریکن ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس ( اے اے اے ایس) کے ہفت روزہ جریدے ' سائنس ' میں پیش کی گئی ہے.
ماہرین کے مطابق اگرچہ ویکیسن بہت ہی کم افراد پر آزمائی گئی ہے لیکن کسی سوال کے بغیر اس کے نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں ۔
مقالے کے مرکزی مصنف، ڈاکٹر رابرٹ سیڈر نے کہا،' ہم اس کے نتائج دیکھ کر حیران اور پرجوش ہیں، لیکن یہ ضروری ہے کہ اب اسے دوہرایا جائے، بڑھایا جائے اور ذیادہ افراد پر آزمایا جائے۔' ڈاکٹر سیڈر ، میری لینڈ میں واقع نیشنل انسٹی ٹیوٹس آف ہیلتھ کے ویکسین ریسرچ سینٹر سے وابستہ ہیں۔
یہ بات کئی عشروں سے علم میں ہے کہ اگر مچھروں کو خاص ریڈی ایشن سے گزارا جائے تو ملیریا سے بچا جاسکتا ہے۔
تاہم، مطالعات سے معلوم ہوا کہ اس کیلئے کسی مچھر سے کم ازکم ایک ہزار دفعہ کٹوانا ضروری ہے تاکہ جسم میں اس ( ملیریا) کیخلاف مدافعت پیدا کی جاسکے۔ لیکن بڑے پیمانے پر ملیریا سے بچاؤ کیلئے یہ تدبیر محال ہے۔
اس کی جگہ ایک امریکی کمپنی ' سینیریا' نے لیب میں افزائش کرنے والے مچھروں کو ریڈی ایشن سے گزارا اور پھر ان میں بیماری کی وجہ بننے والا پیراسائٹ ( پلازموڈیم فالکیپیرم) نکالا۔ یہ تمام عمل چراثیم کُش ماحول میں کیا گیا تھا۔
ماہرین کے مطابق اگرچہ ویکیسن بہت ہی کم افراد پر آزمائی گئی ہے لیکن کسی سوال کے بغیر اس کے نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں ۔
یہ زندہ لیکن کمزور جراثیم شمار کرکے رکھے جاسکتے ہیں جہاں انہیں براہِ راست مریضوں کے خون میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس ویکسین کیلئے امیدوار کا نام PfSPZ ہے۔
طبی آزمائش کے پہلے مرحلے ( فیز ون ٹرائل) کیلئے ماہرین نے ستاون ایسے افراد کا انتخاب کیا جنہں اس سے قبل ملیریا نہیں ہوا تھا۔
ان میں سے 40 افراد کو ویکیسن کی مختلف خوراکیں دی گئیں جبکہ 17 کو کوئی ویکسین نہیں دی گئی۔
علمائے امراض نے دیکھا کہ ویکسین نہ دینے والوں اور کم خوراک کی ویکسین وصول کرنے والے تقریباً تمام افراد ملیریا کا شکار ہوگئے۔
واضح رہے کہ ویکسین دینے کے بعد انہیں تجرباتی طور پر ملیریا کی بیماری میں مبتلا کیا تھا۔
ڈاکٹر رابرٹ سیڈر نے کہا کہ تاریخی حوالوں سے ثابت ہے کہ کم ازکم ایک ہزار دفعہ ملیریا کا مچھر کاٹے تو بدن میں قدرتی طور پر اس سے لڑنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور اسی تناظر میں یہ ویکسین اور خوراک اہمیت رکھتی ہے۔
تاہم جس کم تعداد کے گروہ کو ویکسین کی بلند مقدار دی گئی تھی ان میں 15 میں سے تین افراد متاثر ہوئے اور باقی ملیریا سے محفوظ رہے۔
ڈاکٹر رابرٹ سیڈر نے کہا کہ تاریخی حوالوں سے ثابت ہے کہ کم ازکم ایک ہزار دفعہ ملیریا کا مچھر کاٹے تو بدن میں قدرتی طور پر اس سے لڑنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور اسی تناظر میں یہ ویکسین اور خوراک اہمیت رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسطرح ہم ویکسین کو کم یا ذیادہ کرتے ہوئے مزید مؤثر انداز میں آزمائش کریں گے۔ اس کے بعد اگلا سوال یہ ہوگا کہ کیا اسطرح کی ویکسین ایک خاص عرصے تک اسی قسم کے ملیریا سے بچانے میں مدد دے سکے گی یا نہیں۔
ملیریا مچھروں کی ایک خاص قسم اینوفیلس سے پھیلتا ہے جو ہرسال بیس کروڑ افراد کو متاثر کرکے ان میں سے چھ لاکھ افراد کو ہلاک کردیتا ہے۔
دیگر ماہرین نے اس طریقے کے متعلق کہا ہے کہ اب بھی ملیریا ویکسین اپنے ابتدائی مراحل میں ہے لیکن نتائج پر امید ہیں۔
اس وقت بھی دنیا بھر کی تجربہ گاہوں میں ملیریا کیلئے بیس مختلف ویکسین پر کام ہورہا ہے۔
ان میں سب سے ذیادہ اہم اور جدید RTS,S/AS01 ویکسین نے جو دواساز گلیکسو سمتھ کلائن نے تیار کی ہے اور اس وقت افریقہ کے 15,000 بچوں پر اس کی آزمائش کا تیسرا مرحلہ ( فیز تھری) جاری ہے۔
بشکریہ بی بی سی
تبصرے (1) بند ہیں