گیس بحران پر نیپرا کی انکوائری کمیٹی مسترد کرتے ہیں، شیری رحمٰن
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینیٹر شیری رحمٰن کا کہنا ہے کہ ملک میں گیس بحران پر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے تحت انکوائری کمیٹی کو مسترد کرتے ہیں، نیپرا میں تعیناتی وفاقی حکومت کرتی ہے اور اس کی انکوائری ایسے ہی ہے جیسے بلی کو دودھ کی انکوائری کا کام دے دیا ہو۔
سینیٹ اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بہتر ہے کہ پارلیمان یا قومی اسمبلی کی ایک کمیٹی بنائی جائے جو تیزی سے تحقیقات کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں جو گزشتہ ہفتے بلیک آؤٹ دیکھا گیا اس پر کوئی جواب اب تک سامنے نہیں آیا، حکومت کے مشیران ایک دوسرے پر اس کا الزام ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'سب کو معلوم ہے کہ جنوری تک پاکستان میں گیس کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے، پاکستان کو ان کی نا اہلی کی وجہ سے بریک ڈاؤنز کا سامنا ہے'۔
مزید پڑھیں: سینیٹ انتخابات صدارتی ریفرنس: عدالت نے تشریح کی تو سب پابند ہوں گے، سپریم کورٹ
شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ 'مسئلے کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ گورننس کوئی کھیل ہے، آپ کو معلوم نہیں تھا کہ آپ نے 220 ارب روپے کا ٹیکہ پاکستان کو لگا دیا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'پاکستان کو یہ نئے نئے تحفے دے رہے ہیں، سردیوں میں جہاں پارہ ملک کے کئی علاقوں میں منفی میں ہے وہیں پر عوام کو پانی گرم کرنے کے لیے بھی گیس نہیں مل رہی'۔
انہوں نے کہا کہ 'حکومت نے 44 فیصد مہنگی گیس خریدی، کم از کم اسے وقت پر فراہم کردیتے، ابھی بھی 20 جنوری تک سخت بحرانی کیفیت رہے گی، یہ سارے کام ہر سال کیے جاتے ہیں کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں تھا'۔
شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ 'حکومت نے کہا کہ 14 کارگوز آگئے، 14 کی تو صلاحیت ہی نہیں، کیا سچ ہے کیا جھوٹ، انہوں نے کابینہ میں بھی ایک کہانی گھڑی اور باہر جاکر کچھ اور کہا، جب بات متنازع ہوئی تو سارا ملبہ میڈیا پر ڈال دیا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'کابینہ کا کام ہوتا ہے منصوبہ بندی کرنا، پی ٹی آئی حکومت بھول گئی کہ سردیاں بھی آتی ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'حکومت نے جو قرضے لیے وہ کہاں گئے، پر جگہ ایڈ ہاک پر کام چل رہا ہے'۔
چاہتا ہوں میرا اوپن ٹرائل ہو، سلیم مانڈوی والا
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے ایوان بالا میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'نیب نے میری درخواست پر ریفرنس فائل کردیا ہے، میں یہ جنگ لڑ رہا ہوں کہ نیب بمقابلہ کاروبار نہیں ہونا چاہیے'۔
ان کا کہنا تھا کہ عجیب سا ماحول ہے کہ 29 دسمبر کو نیب بورڈ خبر جاری کرتا ہے کہ فلاں شخص کے خلاف ریفرنس فائل کردیا گیا ہے اور جب ان سے رابطہ کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں ریفرنس فائل ہی نہیں کیا۔
انہوں نے بتایا کہ 'مجھے ریفرنس کی کاپی مل گئی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اوپن ٹرائل ہو'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ایف بی آر کو ہم نے بڑی مشکل سے لوگوں کے بینک اکاؤنٹس میں گھسنے سے روکا، آج یہی کام نیب کر رہی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'اسٹیٹ بینک مغوی ہوچکی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ نیب سے آیا ہے تو ہمیں تفصیلات بھیجنی ہیں'۔
سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ 'اگر ان معلومات کا غلط استعمال ہوا تو ہمارے دو طرفہ معاہدے خطرے میں پڑ جائیں گے، حفیظ شیخ صاحب سے درخواست کروں گا کہ اس میں اپنی رائے دیں اور اسے روکیں'۔
یہ بھی پڑھیں: ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کا نیب سے متعلق حقائق ایوان بالا میں پیش کرنے کا اعلان
ان کا کہنا تھا کہ 'چیئرمین نیب کہتے ہیں کہ میں بلیک میل ہورہا ہوں، سینیٹ کے دروازے ان کے لیے کھلے ہیں، وہ آئیں اور بتائیں کہ کون انہیں بلیک میل کر رہا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'میں اپنی جدوجہد جاری رکھوں گا کہ نیب کو کاروبار سے دور رکھوں ورنہ ملک میں کاروبار کرنا مشکل ہوجائے گا'۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'میری کوئی ذاتی لڑائی نہیں، مجھ پر دس کیس بنیں پرواہ نہیں مگر ملک میں نجی کاروباری برادری نیب کا ہدف نہیں بننا چاہیے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'نیب کے لوگوں کو بلانے میں کیا اعتراض ہے، نیب کے ڈی جی عرفان منگی صاحب کے اہلخانہ باہر رہتے ہیں، ہم ان سے سوالات کیوں نہیں کرسکتے، جب تک نیب والے اپنے اثاثے ظاہر نہیں کریں گے یہ جدوجہد چلتی رہے گی'۔
نیب آرڈیننس کو کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا، بابر اعوان
اجلاس میں وزیر اعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے سلیم مانڈوی والا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کا کسی کو بھی بلا کر سوال جواب کرنے کے حوالے سے حکومت کا مؤقف پہلے دن سے واضح ہے کہ پارلیمنٹ اور سینیٹ کو اس کا پورا اختیار ہے کہ وہ کسی کو بھی طلب کرکے سوالات کرسکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'دوسری بات انہوں نے کہی کہ پاکستان میں نیب کے قانون میں ہمیں اصلاحات لانی چاہیے، جب سے یہ قانون بنا ہے اس میں گزشتہ کسی حکومت میں اصلاحات کی کوشش نہیں کی گئی اور صرف عمران خان کی حکومت میں اس پر ایک آرڈیننس جاری کیا گیا'۔
انہوں نے کہا کہ 'بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ آرڈیننس ایک ہاؤس کی کمیٹی میں پڑا رہا اور وہیں مر گیا مگر کسے نے اسے ہاتھ تک نہیں لگایا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارا مؤقف آج بھی اس پر واضح ہے کہ ہم ہر طرح کے اصلاحات لانے کو تیار ہیں سوائے دو چیزوں کے، ایک یہ کہ این آر او نہیں دیا جائے گا اور دوسرا احتساب اداروں کو تالہ لگا کر چابی کسی اور کو نہیں دی جائے گی'۔
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ 'حکومت نے پوری قوم کو اعتماد دیا کہ اس نے احتساب کے لیے ایک آرڈیننس جاری کیا مگر اس آرڈیننس کا گلا گھونٹ دیا گیا اس میں حکومت کا کیا قصور ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'کہا جاتا ہے کہ ہمیں بے لاگ احتساب سے کوئی اعتراض نہیں، کون لوگ تھے جو کہتے تھے کہ سیاستدانوں کے خلاف احتساب ہوتا ہے، سب نے کالے کوٹ پہنے سب نے استعفوں کا مطالبہ کیا اور جب اپنی باری آتی ہے تو معیار دوہرے ہوجاتے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمیں فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہم پاکستان سے لوٹی ہوئی ساری رقم واپس لانا چاہتے ہیں، قانون سے بڑھ کر کوئی نہیں، کسی مفرور کو پاکستان سے باہر نہیں رہنے دیا جائے گا اور احتساب کے اداروں کو انتقام کے ادارے نہیں بننے دیں گے، ہم کس کے انتظار میں ہیں'۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'کوئی اصلاحات لانی ہیں، کوئی ڈائیلاگ کرنا ہے تو اس کے لیے فورمز دستیاب ہیں'۔
پاکستان ایشیا میں مہنگائی میں سب سے آگے ہے، سراج الحق
جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے سینیٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بابر اعوان جس طرح پی ٹی آئی کی حکومت کی بہترین وکالت کر رہے ہیں ویسے ہی ماضی میں پیپلز پارٹی کی بھی کرچکے ہیں، یہ بہترین وکیل ہیں اور انہیں ان کے کام پر داد دینی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیب پر بات کریں تو ہمارا سابقہ حکومت کے دور میں بھی مطالبہ یہی تھا، ہم قانون دباؤ ڈالنے کے لیے بناتے ہیں۔
مزید پڑھیں: سینیٹ اجلاس کیلئے اپوزیشن کی ریکوزیشن اعتراض لگا کر واپس
انہوں نے کہا کہ 'ہم تعصب کی عینک اتار کر قانون سازی نہیں کریں گے تو کامیاب نہیں ہوسکتے'۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ ایک پاکستانی، 41 اقسام کا ٹیکس دیتا ہے مگر شرم کی بات ہے کہ ملک، ایشیا میں مہنگائی میں سب سے آگے ہے، پاکستانیوں کی قوت خرید ختم ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'اس حکومت کے 950 دن گزر چکے ہیں مگر انہوں نے ایک قدم بھی اسلامی نظام کے لیے نہیں اٹھایا، اگر اسلامی نظام پر ایمان رکھتے ہیں تو اللہ ہمارے مسائل کو حل فرمائے گا'۔
صوبوں سے پوچھے بغیر گیس ادھر سے ادھر کردی جاتی ہے، سکندر میندھرو
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر ڈاکٹر سکندر میندھرو نے ایوان بالا میں اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ 'ہمارے ملک میں گیس کی دستیابی سندھ میں 66.2 فیصد، بلوچستان 21.7 فیصد، کے پی میں 9.39 فیصد اور پنجاب 3.39 فیصد ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'آئین کہتا ہے کہ جس صوبے میں گیس ہو پہلے اس کی ضرورت پوری کی جائے مگر پھر بھی سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا کو اس کی پیداوار سے کم اور پنجاب کو اس سے زیادہ گیس فراہم کی جاتی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'تمام ریگولیٹری اتھارٹیز وفاق کے کنٹرول میں ہیں، جو صوبہ جس کا مالک ہے اس سے پوچھے بغیر گیس ادھر سے ادھر کردی جاتی ہے'۔
حکومت کو لوگوں کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہیے، روبینہ خالد
سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ 'حکومت کو لوگوں کے عزت نفس کا بھی خیال رکھنا چاہیے، پناہ گاہیں بنائی گئیں ہم اس کو سراہتے ہیں مگر ہر کوئی وہاں جاکر کھانا نہیں کھا سکتا'۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ عوام کو باعزت روزگار فراہم کرے۔
انہوں نے کہا کہ قانون سازی کرنا حکومت کا کام ہے، میں سوال کرتی ہوں کہ یہ یہاں کتنے قوانین لے کر آئے ہیں۔
روبینہ خالد کا کہنا تھا کہ اچھی قانون سازی کو وقت دیا جاتا ہے اس پر مباحثے ہوتے ہیں، آج بھی درخواست پر اجلاس طلب کیا گیا ورنہ ان کو تو توفیق نہیں ہوئی تھی۔
علاوہ ازیں وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے ملک میں حالیہ بلیک آؤٹ کے حوالے سے سوالات کا جواب دیا اور بتایا کہ 'گڈو کے گیس ٹربائن کے ساتھ ایک بریکر پر کام ہورہا تھا اور وہاں ارتھ کو انرجائز کرنے سے قبل ورکرز نے نیشنل پاور کنٹرول سینٹر سے رابطہ نہیں کیا جس کی وجہ سے 2 لاکھ 20 ہزار وولٹیج کی لائن زیرو پر ارتھ ہوگئی اور وولٹیج بحران آیا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ایسا سابقہ حکومت کے 5 سالوں میں 8 مرتبہ ہوچکا ہے اور ہم نے اسے 8 گھنٹوں میں ٹھیک بھی کیا'۔
انہوں نے کہا کہ 'اپوزیشن نے ہم سے پہلے حکومت کی، انہوں نے سیہون، لاڑکانہ میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کی اور اب موجودہ حکومت وہاں سرمایہ کاری کر رہی ہے'۔
سابقہ حکومت نے ہمارے لیے بارودی سرنگ چھوڑی تھی، عمر ایوب
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ '2013 سے 2018 تک کے دور حکومت میں جو غلط منصوبہ بندی کی گئی اس کا خمیازہ موجودہ حکومت بھگت رہی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'صلاحیت کی ادائیگی جو سودی ادائیگی ہوتی ہے اور ہر حالت میں دینی ہوتی ہے 2013 میں 185 ارب روپے تھی، 2018 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اسے 468 ارب روپے تک پہنچادیا'۔
انہوں نے کہا کہ 'یہ بارودی سرنگ ہم پر چھوڑ کر گئے تھے اور سب سے پہلے 229 ارب روپے کی بارودی سرنگ تھی جو انہوں نے اس لیے چھوڑی تھی کہ انہیں معلوم تھا کہ یہ دوبارہ اقتدار میں آئیں گے اور اسے اگلی حکومت کو بھرنا ہوگا'۔
انہوں نے بتایا کہ 'حکومت نے سبسڈیز دے کر ان بارودی سرنگ کو ڈفیوز کیا، ملک بہت دشوار ترین مرحلے سے گزر رہا تھا، میں وفاقی کابینہ کے تمام اراکین کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے عوام کو مشکلات سے نکالا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے جو غلط منصوبہ بندی کی تھی اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے، صلاحیتی ادائیگی کی رقم 807 ارب روپے سے بڑھ کر 1455 ارب روپے تک جائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ 'سابقہ حکومت نے ایل این جی کا پہلا ٹرمینل لگایا 13.37 فیصد اور دوسرا 11.62 فیصد میں لگایا گیا، دو ایک جیسی چیزوں کے نرخ کیوں الگ ہیں اس کا ہمیں کوئی جواب نہیں دیتا اور ان ہی وجوہات کی بنا پر انہوں نے ملک کو گروی کیا ہے'۔
وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ 'سندھ کے وزیر اعلیٰ مشترکہ مفادات کونسل میں آکر بیٹھتے ہیں انہیں سب معلوم ہے مگر پھر بھی وہ باہر جاکر غلط کلامی کرتے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ کہتے ہیں کہ سندھ میں گیس کا بہت بڑا ذخیرہ ہے، سندھ کی کل پیداوار 2 ہزار 25 ایم ایم سی ایف ڈی ہے جس میں سے 261 ان کے پاس بیلنس ہے باقی وہ بھی ختم ہوجائے گی'۔
انہوں نے کہا کہ 'جمعے کے روز حکومت 20 نئے بلاکس کی نیلامی کرنے جارہی ہے، سابقہ حکومتوں نے نئے بلاکس پر کام ہی نہیں کیا وہ ایک ہی بلاکس کی کھدائی کرتے رہتے تھے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'احساس پروگرام پر بات کرنے والوں کو احساس اس وقت ہونا چاہیے تھا جب آصف علی زرداری مسٹر 10 پرسنٹ نے ملک کا خزانہ خالی کیا تھا'۔
ان کی اس بات پر پیپلز پارٹی کے اراکین نے ایوان میں شور شرابہ شروع کردیا۔
عمر ایوب نے کہا کہ 'سندھ میں جب گندم کا بحران چل رہا تھا تو سندھ کی حکومت نے کہا کہ انہوں نے خریداری نہیں کی کیونکہ چوہے کھا گئے ہیں، وہ ہاتھی نما چوہے بتادیں کہاں ہیں جنہوں نے سندھ کی عوام کی روٹی پر ڈاکہ ڈالا'۔
ان کا کہنا تھا کہ لاڑکانہ میں لوگ کتوں کے کاٹنے سے مر رہے، یہ سندھ کو رول ماڈل دکھائیں گے اس حکومت کی بنیاد صرف اور صرف کرپشن ہے۔
بعد ازاں چیئرمین سینیٹ نے اجلاس کو پیرکے روز 3 بجے تک کے لیے ملتوی کردیا۔