ندیم افضل چن کو وفاقی کابینہ میں واپس لانے کی کوششیں ناکام
اسلام آباد: وزیر اعظم کے ترجمان ندیم افضل چن نے بدھ کے روز اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کے ایک روز بعد، ان کے کچھ ساتھیوں نے انہیں دوبارہ وفاقی کابینہ میں واپس لانے کی ناکام کوشش کی لیکن ندیم افضل چن نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ وہ اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وفاقی وزیر برائے سمندری امور علی زیدی اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے بیرون ملک مقیم پاکستانی ذوالفقار عباس بخاری سمیت کابینہ کے کچھ ارکان نے ندیم افضل چن کو اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں اور اپنا استعفیٰ واپس لیں۔
اس حوالے سے علی زیدی اور زلفی بخاری سے رابطے کی متعدد کوششیں کی گئیں لیکن وہ تاثرات کے لیے دستیاب نہیں تھے۔
مزید پڑھیں: ندیم افضل چن، وزیراعظم کی ترجمانی سے مستعفی
ندیم افضل چن نے اپنے کچھ قریبی دوستوں کو بتایا کہ وہ اپنے فیصلے پر قائم رہیں گے لیکن انہوں نے مزید کہا کہ وہ تحریک انصاف کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔
وزیر اعظم آفس کے ذرائع کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کو ندیم افضل چن کا استعفیٰ مل گیا ہے لیکن وزیر اعظم نے اب تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں لیا ہے۔
ادھر ندیم افضل نے اپنی سرکاری گاڑی سمیت دیگر سرکاری مراعات واپس کردی ہیں۔
ندیم افضل چن نے بلوچستان کے علاقے مچھ میں 10 ہزارہ کوئلے کے کان کنوں کے وحشیانہ قتل پر "معنی خیز" ٹوئٹ کے چار دن بعد جمعرات کو اپنا استعفیٰ دے دیا تھا۔
ان کا استعفیٰ ایک ایسے موقع پر آیا جب ایک روز قبل وزیر اعظم خان نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں برہمی کا اظہار کیا تھا کہ کابینہ کے کچھ ارکان نے حکومت کے فیصلوں کی مخالفت کی اور انہیں متنبہ کیا کہ اراکین متفقہ فیصلوں کو قبول کریں یا استعفی دیں۔
یہ بھی پڑھیں: ندیم افضل چن کی پی ٹی آئی میں باقاعدہ شمولیت
وزیر اعظم کا مؤقف تھا کہ اجلاس میں مکمل گفتگو اور مختلف امور پر اتفاق رائے تک پہنچنے کے بعد میڈیا میں ایسے فیصلوں کی مخالفت کرنے کی کوئی منطق نہیں ہے۔
وزیر اعظم کے دھرنا دینے ہزارہ برادری کے متاثرین کے ذریعے 'انہیں بلیک میل کرنے' کے متنازع تبصرے کے فوراً بعد ندیم افضل چن نے ٹوئٹ میں مقتول کوئلے کے کان کنوں کے غمزدہ اہلخانہ سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اے بے بس، بےگناہ مزدوروں کی لاشوں، میں شرمندہ ہوں۔
معلوم ہوا ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم نے کسی رکن کا نام لیے بغیر خبردار کیا تھا کہ جو لوگ حکومت کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہیں انہیں پہلے استعفیٰ دینا چاہیے اور پھر سوشل میڈیا پر ان (فیصلوں) پر تنقید کرنی چاہیے۔
جب ڈان نے ٹوئٹ کے بعد ندیم افضل چن سے رابطہ کیا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ ان کی ٹوئٹ 'ان کے ضمیر کی آواز ہے' کیونکہ انہوں نے پہلے ہی وفاقی کابینہ کے آخری اجلاس میں فوری طور پر کوئٹہ جانے کا مشورہ دیا تھا تاکہ سرد موسم میں لاشوں کے ساتھ دھرنا دینے والے غم زدہ افراد اپنے پیاروں کو دفن کر سکیں۔
ندیم افضل چن کو اس خیال کے سب سے مضبوط حامیوں میں سے ایک کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم کو مقتول ہزاروں افراد کے غمزدہ خاندانوں کے دکھ اور غم میں شریک ہونے کے لیے 'بغیر کسی تاخیر' کے کوئٹہ کا دورہ کرنا چاہیے تھا، وزیر اعظم نے مطابہ پورا کرتے ہوئے کوئٹہ کا دورہ تو کیا لیکن یہ دورہ مقتول مزدوروں کی تدفین کے بعد کیا گیا۔
مزید پڑھیں: 'لاشوں کی تدفین نہ کرکے وزیراعظم کو بلیک میل نہیں کیا جاسکتا'
ندیم افضل چن نے کہا کہ میں پہلا شخص تھا جس نے وزیر اعظم پر کسی تاخیر کے ساتھ کوئٹہ جانے پر زور دیا تھا۔
ندیم افضل چن کی جانب سے استعفیٰ دیے جانے کے بعد ان سے رابطہ کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں لیکن وہ بے سود رہیں۔
کچھ دن پہلے ہی وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی تابش گوہر نے ذاتی وجوہات کی بنا پر دبئی سے وزیر اعظم کو اپنا استعفیٰ بھیج دیا تھا لیکن وزیر اعظم نے اسے قبول نہیں کیا اور منگل کے روز ایک میٹنگ کے دوران ان سے کہا گیا کہ وہ اسی حیثیت میں کام جاری رکھیں۔
ندیم افضل چن سے پہلے وزیر اعظم کے کچھ دوسرے ساتھی وفاقی کابینہ چھوڑ چکے ہیں جن میں سابق وزیر برائے ہیلتھ سروسز عامر کیانی، سابق وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان، فرخ سلیم، ڈاکٹر ظفر مرزا، عاصم باجوہ، شہزاد قاسم، افتخار درانی اور تانیہ ایردس شامل ہیں۔