چینلز پر بیٹھ کر تبصرے کرنے والوں کو قانون کا پتا ہی نہیں ہوتا، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
لاہور ہائی کورٹ نے ساہیوال کے سول جج اور اسسٹنٹ کمشنر کے تنازع سے متعلق کیس کی سماعت میں پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے چیئرمین کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا اور ریمارکس دیے کہ جو چینلز پر بیٹھ کر تبصرے کرتے ہیں انہیں قانون کا پتا ہی نہیں ہوتا۔
ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاسم خان نے سردار فرحت منظور خان چانڈیو اور ایڈووکیٹ محمد شبیر حسین کی دائرہ کردہ درخواست کی سماعت کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر صوبے بھر کے کمشنر اور چیف سیکریٹریز کو بھی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔
خیال رہے کہ سول جج محمد نعیم اور اسسٹنٹ کمشنر کے مابین تنازع کے بعد سرکاری عہدیداران نے احتجاج کرتے ہوئے ہڑتال کردی تھی جس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائی کورٹ کا سینئر پولیس افسران کو رات میں گشت کرنے کا حکم
سماعت میں چیف جسٹس قاسم خان نے ہدایت کی کہ پیمرا سے تصدیق کرکے رپورٹ دیں کہ احتجاج کرنے والے کون تھے اور کہا کہ بینرز اٹھانے والے ملازمین کی تصویریں چاہیے۔
چیف جسٹس نے لا افسر سے استفسار کیا کہ عدلیہ کے بارے میں جو فقرہ لکھا گیا ہے کیا وہ درست ہے؟
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے اسسٹنٹ کمشنر ساہیوال سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے کہا تھا کہ آپ عدالتوں کو بند کر دیں گے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں ایسی جرات نہیں کرسکتا اور نہ سوچ سکتا ہوں۔
اس پر جسٹس قاسم خان نے دریافت کیا کہ پیمرا نے غلط خبر چلانے پر چینلز کے خلاف کیا کارروائی کی ہے؟ جس کے جواب میں سرکاری وکیل نے بتایا کہ پیمرا نے ایسے چینلز کو شوکاز نوٹس جاری کیے ہیں۔
چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ اس کے باوجود اس معاملے پر چینلز پر پروگرام ہوئے ہیں، جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ نوٹس کے ذریعے چینلز کو ذاتی سنوائی کا موقع دیا ہے۔
چیف جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دیے کہ یہ جو چینلز پر بیٹھ کر تبصرے کرتے ہیں ان کو قانون کا پتا ہی نہیں ہوتا، تبصرہ کرنیوالوں کو پتا ہی نہیں ہوتا کس نقطے پر اعلیٰ عدلیہ کے کون سے فیصلے آئے ہیں۔
مزید پڑھیں: جسٹس محمد قاسم خان کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کردیا گیا
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ پیمرا میں 2011 کے جاری کردہ نوٹس زیر التوا پڑے ہیں، جو سیاسی لیڈر چاہتا ہے وہ انٹرویوز میں عدلیہ کے بارے میں جو چاہے کہہ دیتا ہے۔
چیف جسٹس قاسم خان نے ریمارکس دیے کہ پتا کریں ایک چینل کے پروگرام میں کہا گیا کہ تھپڑ مارنے والے کو عدلیہ میں سزا نہیں ہوتی، ان مطلق العنان جاہلوں کو پتا ہی نہیں کہ سزا قانون کے تحت دی جاتی ہے عدالت از خود نہیں دیتی۔
بعدازاں انہوں نے مزید کہا کہ چیئرمین پیمرا کو طلب کر لیتے ہیں وہ ان سارے معاملات پر بتائیں گے۔
چیف جسٹس قاسم خان نے کہا کہ سرکاری ملازمین کے احتجاج کے بارے میں ٹرانسکرپٹ اور دیگر مواد مانگا تھا جس پر سرکاری وکیل نے کہا کہ تمام افسران اور ملازمین نے جواب دیا کہ انہوں نے ہڑتال نہیں کی کام کیا ہے اور میڈیا پر غلط خبریں چلائی گئیں تھیں۔
کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ تحصیل ساہیوال کے اسسٹنٹ کمشنر اور میونسپل کمشنر راجا محمد حیدر کو تجاوزات سے متعلق کیس میں سول جج محمد نعیم نے طلب کیا تھا تاہم کئی مرتبہ طلبی پر پیش نہ ہونے کی وجہ سے میونسپل کمشنر کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔
بعدازاں ایک سماعت میں اسسٹنٹ کمشنر نے عدالت میں حاضر ہو کر مؤقف اختیار کیا کہ وہ دیگر سرکاری مصروفیات کی وجہ سے پیش نہیں ہوسکے جس پر جج نے ان کے رویے کو نامناسب قرار دیتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا۔
اس موقع پر اسسٹنٹ کمشنر اور جج کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور جج نے اپنے عملے کو اسسٹنٹ کمشنر راجا محمد حیدر کو ہتھکڑی لگا کر جیل منتقل کرنے کا حکم دیا۔
تاہم اس صورتحال میں مقامی وکلا تنظیم نے مداخلت کی اور ان کے اصرار پر اسسٹنٹ کمشنر نے تحریری طور پر معذرت کی جس پر انہیں رہا کردیا تھا۔
جج کی جانب سے اسسٹنٹ کمشنر کو ہتھکڑی لگانے پر احتجاج کرتے ہوئے پر ضلعی انتظامیہ اور ریونیو کے عملے نے ہڑتال کردی تھی۔
مذکورہ معاملے پر چیف سیکریٹری پنجاب جواد رفیق ملک نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا تھا اور ان تک اپنے عملے کے مطالبات پہنچائے تھے۔
بعدازاں 19 دسمبر کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور چیف سیکریٹری پنجاب کی جانب سے علیحدہ علیحدہ نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے سول جج محمد نعیم کا میانوالی کی تحصیل پیپلاں جبکہ اسسٹنٹ کمشنر کا فیصل آباد تبادلہ کردیا گیا تھا۔
دوسری جانب سردار فرحت منظور خان چانڈیو اور ایڈووکیٹ محمد شبیر حسین کی جانب سے اس معاملے پر لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی جس میں حکومت پنجاب، بورڈ آف ریونیو، کمشنر اور ڈپٹی سرگودھا، اسسٹنٹ کمشنر راجا محمد حیدر اور سول جج محمد نعیم کے علاوہ چیئرمین پیمرا کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ سرکاری ملازمین سے پوچھا جائے کہ انہوں نے کس قانون اور وجہ کے تحت عدالتی احکامات، اپنے فرائض کی ادائیگی سے انکار کیا، سڑکیں بلاک کیں اور باضابطہ طریقہ کار اپنانے کے بجائے عدلیہ مخالف نعرے لگائے۔
درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ سرکاری عہدیداران کو فوری طور پر اپنے فرائض انجام دینے کی ہدایت کی جائے۔