کووڈ 19 کے مریضوں میں نمونیا پھیپھڑوں کے لیے زیادہ تباہ کن
نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے شکار افراد میں نمونیا ایک عام مسئلہ ہوتا ہے۔
تاہم اب پہلی بار انکشاف ہوا ہے کہ کووڈ 19 کا نمونیا دیگر اقسام کے نمونیا سے مختلف ہوتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
بیکٹریا یا وائرسز کے نتیجے میں ہونے والا نمونیا چند گھنٹوں میں پھیپھڑوں کے بڑے حصے میں پھیل جاتا ہے، جس کو اینٹی بائیوٹیکس یا جسمانی مدافعتی نظام کی مدد سے بیماری کے چند دن بعد کنٹرول کرلیا جاتا ہے۔
تاہم نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ کووڈ 19 کا نمونیا مختلف ہوتا ہے۔
طبی جریدے نیچر میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ پھیپھڑوں کے بیشتر حصوں میں تیزی سے پھیلنے کی بجائے کووڈ 19 کے مریضوں میں نمونیا متعدد چھوٹے حصوں میں رک جاتا ہے۔
تحقیق کے مطابق اس کے بعد یہ نمونیا پھیپھڑوں کے مدافعتی خلیات کو ہائی جیک کرکے ان کی مدد سے کئی ہفتوں تک پھیپھڑوں میں خود کو پھیلاتا ہے، بالکل ایسے جیسے کسی جنگل میں کئی مقامات پر آگ بھڑک اٹھنا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ جیسے جیسے بیماری سست روی سے پھیپھڑوں میں پھیل رہی ہوتی ہے، وہ پھیپھڑوں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ کووڈ کے مریضوں میں مسلسل بخار، لو بلڈ پریشر اور گردوں، دماغ، دل اور دیگر اعضا کو بھی نقصان پہنچارہی ہوتی ہے۔
یہ پہلی تحقیق ہے جس میں سائنسدانوں نے کووڈ کے باعث نمونیا کے شکار مریضوں کے پھیپھڑوں کے مدافعتی خلیات کا منظم تجزیہ کیا اور ان کا موازنہ دیگر وائرسز یا بیکٹریا کے باعث ہونے والے نمونیا کے متحرک ہونے والے خلیات سے کیا۔
اس تفصیلی تجزیے کے نتیجے میں محققین نے کووڈ 19 میں نمونیا کی سنگین شدت کے علاج کے لیے اہم اہداف کی شناخت بھی کی۔
یہ اہداف مدافعتی خلیات macrophages اور ٹی سیلز تھے اور تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ macrophages نئے کورونا وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں، جس کے بعد بیماری پھیپھڑوں میں پھیل سکتی ہے۔
نارتھ ویسٹرن کے ماہرین کی جانب سے ایک تجرباتی دوا کو ان اہداف کے علاج کے لیے استعمال کیا جائے گا اور اس کا ٹرائل رواں سال شروع کیا جارہا ہے۔
یہ دوا مدافعتی خلیات کے ورم پیدا کرنے والے ردعمل کو کم کرتی ہے، جس کے نتیجے میں پھیپھڑوں کی مرمت کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد کووڈ کی شدت کو معمولی بنانا ہے، پھر اس کا موازنہ عام نزلہ زکام سے ہوسکے گا۔
انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 بھی انفلوائنزا کی طرح ہے جس کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہوسکے گا، چاہے دنیا کی بیشتر آبادی کو ویکسین ہی کیوں نہ فراہم کردی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ نارتھ ویسٹرن اور دیگر اداروں کے محققین کی جانب سے اندازہ لگایا جارہا ہے کہ یہ آر این اے وائرس بہت تیزی سے خود کو بدلتا ہے، جو موجودہ ویکسینز کے خلاف مزاحمت کرسکتا ہے، اس تحقیق سے ہمیں کووڈ 19 کے شکار مریضوں میں اس کی شدت کو کم رکھنے میں مدد ملے گی۔
تحقیق میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ کووڈ 19 کے باعث وینٹی لیٹر پر جانے والے مریضوں میں موت کی شرح عام نمونیا کے باعث ویٹی لیٹر پر جانے والے مریضوں کے مقابلے میں کم ہے۔
تحقیق کے مطابق عام نمونیا کے نتیجے میں پھیپھڑوں کو بہت تیزی سے شدید نقصان پہنچتا ہے جبکہ کووڈ 19 میں نمونیا کے نتیجے میں پھیپھڑوں کا ورم اتنا شدید نہیں ہوتا۔
اس تحقیق کے دوران وینٹی لیٹر پر جانے والے 86 کووڈ 19 کے مریضوں کے پھیپھڑوں میں جمع ہونے والے پانی کا ہائی ریزولوشن تجزیہ کیا گیا اور اس کا موازنہ دیگر اقسام کے نمونیا کے باعث وینٹی لیٹر پر جانے والے 256 مریضوں کے پھیپھڑوں کے پانی سے کیا گیا۔
یہ محققین کئی برسوں سے نمونیا پر کام کررہے ہیں اور اسی وجہ سے جب کووڈ کی وبا پھیلنا شروع ہوئی تو وہ اس نئی بیماری کے مریضوں کے پھیپھڑوں میں جمع ہونے والے پانی کا تجزیہ کرنے کے لیے تیار تھے، تاکہ دیگر مریضوں سے اس کا موازنہ کیا جاسکے۔
انہوں نے اس سیال سے خلیات کو حاصل کیا اور اس میں آر این اے سمیت پروٹینز کا تجزیہ کیا، تاکہ جان سکیں کہ کس طرح یہ مدافعتی خلیات ورم کا باعث بنتے ہیں۔
محققین نے بتایا کہ اس طرح کا موازنہ پھیپھڑوں میں جمع ہونے والے پانی کے بغیر ممکن نہین تھا اور اس کی پیچیدگی کے باعث سو سے زائد ماہرین نے اس پر کام کیا۔