چارسدہ کی گُڑ گانی میں گزرا ایک دن
صرف حسین علاقے ہی پاکستان کی خوبصورتی کی واحد وجہ نہیں ہیں، بلکہ مختلف زبانوں اور ثقافتوں کی رنگینیاں بھی پاکستان کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتی ہیں۔
پاکستان کے تمام صوبے اور شہر اپنی کسی نہ کسی انفرادیت کے سبب دنیا بھر میں جانے جاتے ہیں۔ ایک سیاح کی حیثیت سے میری ہمیشہ یہی کوشش ہوتی ہے کہ ملکِ خداداد کے کونے کونے کی خوبصورتی، تاریخ اور ثقافت کو ناصرف قریب سے دیکھ سکوں بلکہ وہاں کی مقامی چیزوں کے فروغ میں بھی اپنا کردار ادا کرسکوں۔
گوادر سے لے کر چترال تک پاکستان کا چپہ چپہ اپنی منفرد ثقافت، خوبصورتی اور مقامی طور پر تیار کی جانی والی چیزوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ مقامی طور پر تیار کی جانی والی چیزیں ناصرف پاکستان بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں بجھوائی جاتی ہیں۔
صوبہ خیبر پختوخوا کی سرزمین بھی اس حوالے سے کافی زرخیز ہے۔ مقامی طور پر تیار کی جانی والی اشیا میں سوات، اسلام پور، بنوں اور چارسدہ و شبقدر کی شالیں، کھدر کا کپڑا اور چارسدہ و مردان کا گُڑ اور چپل پورے پاکستان میں الگ پہچان رکھتے ہیں۔
چھٹی صدی قبل مسیح سے دوسری صدی عیسوی تک گندھارا کا صدر مقام چارسدہ تھا جس کا قدیم نام پشکلاوتی تھا۔ پشکلاوتی کا مطلب ’کنول کا شہر‘ ہے۔ چارسدہ ریاست گندھارا کے انتظامی امور کا مرکز تھا۔ تاریخ کے اوراق میں مشہور جنگجو اور حملہ آوروں نے یہاں پر حکومت کی۔ ان حملہ آوروں میں فارسی، سکندرِ اعظم، موریائی، ترک، کشن اور سکھ وغیرہ شامل تھے۔
1998ء میں ضلع کی حیثیت حاصل ہونے سے پہلے چارسدہ ضلع پشاور کی ایک تحصیل تھا۔ چارسدہ، شبقدر اور تنگی کی 3 تحصیلوں پر مشتمل ضلع چارسدہ کی آبادی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق 16 لاکھ 16 ہزار ایک سو 98 نفوس پر مشتمل ہے۔ تمباکو، گنا، گندم، مکئی اور چقندر یہاں کی تینوں تحصیلوں میں زیادہ کاشت کی جانی والی فصلیں ہیں۔ یہاں کی زمینوں پر مختلف قسم کی سبزیوں کی کاشت بھی کی جاتی ہے۔ جبکہ کچھ علاقوں میں پھلوں میں خوبانی، آم، آڑو، آلوچہ، لیموں اور توت فرنگی کے باغات بھی ہیں جبکہ تنگی کے علاقے آبازئی کے آم زیادہ مشہور ہیں۔
چارسدہ کی مشہور چیزوں میں سرفہرست رجڑ اور شبقدر کا کھدر کا کپڑا، رجڑ کی مٹھائی، اون کی شالیں اور پشاوری مردانہ چپل ہیں، جبکہ یہاں کا گُڑ بھی ملک اور بیرونِ ملک میں یکساں طور پر مشہور ہے۔ ضلع چارسدہ کی 90 فیصد آبادی کاشتکاری سے وابستہ ہے۔ گنا یہاں کی بڑی اور اہم فصل ہے جس سے گُڑ بنایا جاتا ہے۔
چونکہ میرا تعلق چارسدہ کے تاریخی شہر اور 2 دریاؤں دریائے کابل اور سوات کے کنارے آباد شبقدر سے ہے، اس لیے گزشتہ ہفتے مقامی دوستوں کے ساتھ ایک عرصے بعد شبقدر کے قریب مٹہ مغل خیل گاؤں کی ایک گُڑ گانی (فیکٹری) میں جانے کا اتفاق ہوا۔ تقریباً ایک ایکڑ کے رقبے پر پھیلی یہ گانی 3 کچے کمروں پر مشتمل تھی۔ کمرے کے باہر برآمدے میں ایک مشین گنے کا رس نکالنے کے لیے لگائی گئی تھی۔
قریب ہی ایک کھیت سے گنے کے اسٹاک کو برآمدے سے باہر کھلے میدان میں جمع کیا جارہا تھا۔ چونکہ گُڑ کی تیاری میں کچھ وقت تھا اس لیے ایک مقامی دوست ہمیں قریب گنے کے ایک کھیت میں لے گئے۔ کھیت میں موجود کاشتکار روح اللہ جان صاحب نے ہماری تواضع گنے کی ایک پوری گٹھڑی سے کی۔
گنا چوستے ہوئے میں نے پوچھا کہ یہ گنا انتہای نرم اور اس کا رس انتہائی میٹھا ہے۔ کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟
روح اللہ جان صاحب نے اس سوال کا جواب یوں دیا کہ ’یہ گنے کی ایک اعلیٰ قسم ہے اور گنے کی اس قسم کو مقامی کاشتکار 310 نمبر کہتے ہے۔ یہ گنا چارسدہ کے چند مخصوص علاقوں میں کاشت ہوتا ہے جن میں تنگی کا علاقہ آبازئی اور شبقدر کے مٹہ مغل خیل وکتوزئی شامل ہیں۔ رنگ کاٹ (کیمیکل) شامل کیے بغیر 310 نمبر گنے سے تیار کردہ گُڑ چائے کے لیے بہترین تصور کیا جاتا ہے۔ اس لیے ان علاقوں سے پورے پاکستان اور افغانستان کے لیے سپلائی کی جاتی ہیں‘۔
اصل گُڑ کی پہچان کیسے کی جائے؟ اس کی تیاری کیسی کی جاتی ہے اور کیا گُڑ صحت کے لیے مضر بھی ہوتا ہے؟ میرے یکے بعد دیگرے سوالوں کے جواب میں روح اللہ جان صاحب نے کہا کہ ’اصل میں یہ سب کچھ گنے کے بیج کی قسم، زمین پر گِرا ہوا یا سیدھا گنا، زمین کی ساخت، گنے کے رس کا شیرہ بنانے کی ٹائمنگ اور بنانے والوں کی نیت و مہارت پر منحصر ہوتا ہے۔ ابلتی ہوئی پت (گنے کے رس) سے مَیل اتارنے اور صفائی کے لیے گاؤزبان، سکھلائی اور کچھ دیگر غیر مضر اجزا ڈالے جاتے ہیں جن کا اثر ایک گھنٹے تک 100 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زائد درجہ حرارت پر ابلنے سے بالکل ختم ہوجاتا ہے اور آخر میں خالص گنے کا گاڑھا شیرہ ہی بچتا ہے، جس سے گُڑ یا شکر بنا لیا جاتا ہے۔ گُڑ نقصاندہ تب ہوتا ہے جب لکڑی کی ٹرے میں ڈالنے کے بعد شیرے میں کوئی کیمیکل جیسے چینی، کھاد اور رنگ بدلنے والے نقصاندہ فوڈ کلرز وغیرہ ڈالے جائیں‘۔
روح اللہ جان صاحب سے تھوڑی دیر گپ شپ کے بعد ہم واپس گانی (فیکٹری) کی طرف آگئے تاکہ گُڑ کی تیاری کے مختلف مراحل کا قریب سے مشاہدہ کیا جائے۔ فیکٹری کے باہر ایک بڑے میدان میں مشین کے ذریعے گنے کا جوس نکالا جا رہا تھا۔ جہاں سے رس کو ایک پائپ کے ذریعے اندر کچے کمرے میں موجود ایک بڑی کڑاہی میں منتقل کیا جارہا تھا۔
کڑاہی کے نیچے آگ لگائی گئی تھی۔ مقامی دوست ہمیں اندر ایک چارپائی پر بٹھا کر خود مقامی لوگوں کے ساتھ گنے کے رس نکالنے کے عمل میں مصروف ہوگئے تھے جبکہ ہم چارپائی سے ہی گُڑ کی مرحلہ وار تیاری کو دیکھنے لگے۔
کڑاہی میں گنے کے رس کو 2 سے ڈھائی گھنٹے تک خوب پکایا گیا۔ اس دوران ہم اسی چارپائی پر دوپہر کا کھانا نوش کرنے کے بعد قریبی مسجد میں نماز بھی پڑھ کر آگئے تب جا کر رس خوب پکنے کے بعد گاڑھا ہوکر شیرے کی شکل اختیار کرگیا۔
اب گاڑھے چیڑ نما گُڑ کو کڑاہی کے قریب لکڑی کی بنی ہوئی ایک گول ٹرے میں شفٹ کرنا شروع کردیا گیا جہاں موجود مقامی افراد اس کی ٹیکیاں بنانے لگے۔
ہمارے ایک دوست محمد اسرار اپنے ساتھ ڈرائی فروٹ (کاجو، بادام، اخروٹ، مونگ پھلی، خربوزے کا مغز، کالی مرچ، اور ہلدی وغیرہ) ساتھ لائے تھے، اس لیے ایک بزرگ نے ہمارے لیے مصالحہ دار گُڑ بنانے کے لیے ان خشک میوہ جات کو گُڑ میں مکس کرنا شروع کردیا جبکہ دوسری طرف ہم چیڑ گُڑ کا مزہ لینے کے لیے گنے کے کچھ حصے گُڑ کے گاڑھے میں ڈبو رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ہم گنے سے چپٹی چیڑ گُڑ کے مزے لینے میں مصروف ہوگئے۔ چیڑ گُڑ اور مصالحہ دار گُڑ کو قہوہ (سبز چائے) کے ساتھ کھانا پختون روایات کا لازمی حصہ مانا جاتا ہے۔
گاڑھے شیرے سے گُڑ بنانے کا عمل جاری تھا کہ روح اللہ جان صاحب باہر کے کاموں سے فارغ ہوکر ایک بار پھر ہمارے پاس آکر بیٹھ گئے۔ روح اللہ جان صاحب کے بیٹھنے کے ساتھ ہی میں نے ایک اور سوال کردیا کہ گنے کی کٹائی کب شروع ہوتی ہے اور گُڑ جب یہاں سے گُڑ منڈی تک پہنچتا ہے تو کتنی قیمت میں ہول سیلر زمیندار سے خریدتے ہیں۔ 75 کلو کی ایک بوری کی قیمت کتنی ہے؟
روح اللہ جان صاحب نے میرے سوالات کو بغور سنتے ہوئے جواب دینے شروع کیے کہ ’صوبے خیبرپختونخوا اور پنجاب میں نومبر کے مہینے میں گُڑ بنانے کے لیے گنے کی فصل کی کٹائی شروع ہوجاتی ہے اور یہ سلسلہ مارچ تک چلتا ہے۔ زیادہ تر کاشتکار اپنی فصل کو شوگر ملوں کو دینے کے بجائے گُڑ بنانے میں استعمال کرتے ہیں، تاہم اگر مارکیٹ میں گُڑ کا دام کم ہوجائے تو کاشتکار گنے کو شوگر ملوں کو بیچ دیتے ہیں۔ صوبے میں زیادہ تر گنا ضلع صوابی، مردان، چارسدہ اور نوشہرہ میں کاشت کیا جاتا ہے اور گُڑ گانیوں کے ذریعے مقامی سطح پر گنے سے گُڑ حاصل کیا جاتا ہے‘۔
روح اللہ جان نے مزید بتایا کہ ’چونکہ ہمارے علاقے مٹہ مغل خیل سمیت شبقدر کے کتوزئی اور تنگی کے علاقے آبازئی کا گُڑ بہترین کوالٹی کا ہوتا ہے اس لیے بیوپاری (ہول سیلر) فیکٹریوں میں 150 کلو کی 2 بوری 18 ہزار سے 22 ہزار روپے تک خرید لیتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں زیادہ تر گانیوں (فیکٹریوں) کے مالک گُڑ کا رنگ اور ذائقہ بہتر بنانے کے لیے کیمیکل کا استعمال نہیں کرتے اس لیے شبقدر اور چارسدہ کے گُڑ کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ یہاں سے ہول سیلر گُڑ خرید کر پشاور کی منڈی تک پہنچاتے ہیں جہاں سے پورے ملک اور افغانستان تک گُڑ کی سپلائی کی جاتی ہیں‘۔
ان کے مطابق ’گُڑ بنانے والی ان فیکٹریوں میں ہزاروں کی تعداد میں مزدور کام کرتے ہیں۔ ایک کاشتکار کو اخراجات نکال کر اوسطاً فی بوری 3 سے 4 ہزار روپے منافع ہوتا ہے۔ اس سے ان کی گزر بسر اچھے طریقے سے ہوجاتی ہے۔
پاکستان میں ہیلتھ ایجوکیشن اور نیوٹریشن پر کام کرنے والے سید ظفر کے مطابق ’گُڑ ایک ایسی سوغات ہے جو ناصرف سستی اور ذائقہ دار ہے بلکہ طبّی فوائد سے بھی مالا مال ہے۔ خالص گنے کے رس سے تیار کیا جانے والے گُڑ کو چینی کا متبادل بھی کہا جاتا ہے۔ گُڑ میں کیروٹین، نکوٹین، تیزاب، وٹامن اے، وٹامن بی ون، وٹامن بی ٹو، وٹامن سی کے ساتھ ساتھ آئرن اور فاسفورس وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے‘۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گُڑ، چینی کا قریب ترین بدل ہے جسے آپ بالکل چینی کی طرح استعمال کرسکتے ہیں بلکہ گُڑ، چینی کی نسبت زیادہ فوائد کا حامل ہے۔ جب تک چینی کا نام کسی نے نہیں سنا تھا اور بڑے پیمانے پر اس کی تیاری نہیں ہوتی تھی اس سے پہلے لوگ خالص گُڑ کا استعمال ہی کیا کرتے تھے اور اس وقت لوگوں میں بیماریاں بھی کم ہوتی تھیں۔ قدیم زمانے سے گُڑ کو پکوانوں کی تیاری اور مختلف قسم کی بیماریوں کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
گُڑ توانائی کو بحال رکھنے کی صورت میں بھی جسم کے لیے فائدہ مند ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ غذا میں موجود کاربوہائیڈریٹس انسانی جسم میں توانائی کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں اور ایسے افراد جو جلدی تھکاوٹ کے شکار ہوجاتے ہیں ان کے لیے گُڑ کا استعمال انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس چینی یا گلوکوز کا استعمال بلڈپریشر، بے چینی اور دل کے امراض میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ پھر گُڑ قبض کشا بھی ہے۔
طبّی ماہرین قبض کو دیگر جسمانی امراض کی جڑ قرار دیتے ہیں اور گُڑ کی قبض کشا صفات، جسم سے غیر ضروری مادوں کے اخراج میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ یہ اندرونی نظامِ انہضام کو متحرک کرتے ہوئے قبض سے نجات دلاتا ہے۔
روح اللہ جان صاحب کے مطابق ملک میں اس وقت گُڑ کے فوائد کے حوالے سے آگاہی حاصل ہونے اور چینی کے آئے دن بحران کی وجہ سے گُڑ کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے مختلف علاقوں سے گُڑ اب مرکزی منڈیوں تک پہنچنا شروع ہوچکا ہے، بلکہ ہر شے کی طرح اب گُڑ کی بھی آن لائن خریداری شروع ہوچکی ہے، جس کے بعد پاکستان سمیت دیگر ممالک میں گُڑ کی ترسیل گاہک کے گھروں تک ممکن ہوگئی ہیں جس سے یقیناً مقامی کاشتکار مزید خوشحال ہوں گے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ محکمہ زراعت بھی کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ ملک میں آئے روز شوگر مافیا کے مصنوعی چینی بحران اور شوگر ملز مالکان کی لوٹ مار سے عوام چھٹکارا حاصل کرسکیں۔
گُڑ گانی پر دیر تک گپ شپ کرنے کے بعد ہم 5 کلو مصالحہ دار گُڑ اور چیڑ گُڑ تیار کرکے عصر کے بعد اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوگئے۔
تبصرے (4) بند ہیں